باب: (فرمان نبوی: ) "ہر بچہ پیدا ہونے والے بچے کی ولادت فطرت پر ہوتی ہے" کا مفہوم اور کافروں اور مسلمانوں کے فوت ہو جانے والے بچوں کا حکم؟
)
Muslim:
The Book of Destiny
(Chapter: The Meaning Of "Every Child Is Born In A State Of Fitrah" And The Ruling On The Dead Children Of The Disbelievers And Of The Muslims.)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2661.
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اور انہوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس لڑکے کو حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا وہ طبعا کافر بنایا گیا تھا، اگر وہ زندہ رہتا تو زبردستی اپنے ماں باپ کو سرکشی اور کفر کی طرف لے جاتا۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
آپﷺ نے یہ بات سمجھائی کہ ہر بچہ ملت پر پیدا ہونے کے باوجود کچھ خارجی عوامل، مثلاً: پیدائش کے فوراً بعد شیطان کے اثرات بلکہ بعض سابقہ اجداد کی خرابیو ں کے اثرات اس میں پیدا ہو سکتے ہیں، اللہ تعالی کو علم تھا کہ مستقبل میں یہ بچہ اپنے نیک ماں باپ کے لیے بھی گمراہی کا سبب بنے گا، یہ اس کا کرم تھا کہ اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیاگیا، وہ بھی مستقبل کے گناہوں سے بچ گیا اور اس کے ماں باپ بھی بچ گئے۔ اس کی مثال دے کر آپﷺ نے جو بات بتائی وہ یہ ہے کہ خارجی عوامل کے اچھے برے اثرات خلقت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتے ہیں اور طبائع، جن کا خاصا اس کے آباء و اجداد تک کے اعمال پر ہوتا ہے مختلف ہےتے ہیں، اس لیے کسی بھی کم سن کے مرنے کے بعد جو کچھ ہونا ہے عام انسان اس کا اپنے طور پر کچھ سمجھ لینا اندازے سے کوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں،
’’قدر‘‘کاترجمہ عام طورپر ’’اندازہ‘‘کیا جاتا ہے اس سےاللہ کی تقدیر کامفہوم صحیح طورپر واضح نہیں ہو پاتا کیونکہ انسانی تصرف کےمطابق اندازہ مستقبل کےحوالے سے غیرحتمی اورغیر یقینی قسم کے علم کو کہتے ہیں جبکہ اللہ کی قدرت اور اس کاعلم غیر حتمی اورغیر یقینی ہونے مبرا ہے (اندازاہ )کی نسبت اگرمقدار کےمفہوم سے ’’قدر‘‘یا’’تقدیر‘‘کامفہوم سمجھنے کی کوشش کی جائے تو زیادہ بہتر طور سمجھ میں آسکتا ہے ۔ تقدیر کے حوالے سےیہ لفظ خود رسول اللہﷺ نے بولا ہے(حدیث :6748) اللہ نے فرمایا ہے (اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَى وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ)اللہ جانتاہے جوہر مادہ بارآورہوتی ہے اورارحام جتنے سکڑتے اورجتنے بڑھتے ہیں اور اس کے پاس ہرچیز مقدار کےمطابق ہے ۔ ‘‘(الرعد8:13)اگلی آیات میں اس بات کےعجیب وغریب پہلو بیان ہوئے ہیں جن سےمفہوم کی وضاحت ہوتی ہے (عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ) چھپے اورکھلے کاجاننےوالا سب سےبڑ ا سب سے اوپر ہے ۔‘‘(الرعد9:13)کوئی چیز چھپی ہے تو جتنی اس نے رکھی پوری ہے اور پوری طرح اس کےعلم میں ہے کوئی چیز کھلی ہے تو جتنی اس نے رکھی اتنی ہی ہے اور اس کےعلم میں ہے ۔ اس میں جوتغیر آتا ہے وہ بھی اتناہے جتنا اس نے رکھا اورپوری طرح اس کےعلم میں ہے وہ سب سے بڑا ہے ،ہرچیز پر اس کامکمل اختیار ہے ۔ سب سےبلند ہے اورہرچیز اس کےسامنے واضح ہے پھر یہ فرمایا(سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ) ’’برابر ہے تم میں سےجوچپکے سے بات کہے اورجواونچی آواز سے کہے اور (اس کےنزدیک برابر ہے) جورات کو چھپا ہوا ہے اور جو دن کو سامنے پھر رہا ہے ۔‘‘(الرعد10:13)یہ سب کچھ اسی طرح اسی مقدار کے مطابق ہے جو اس نے مکمل طورپر اس کے اختیار میں ہے اورہر عمل سےجونتیجہ نکلتا ہے وہ بالکل مادی، زمانی، زمینی ہرطرح کی مقدار کےتعین کےلیے قدر یاتقدیر کالفظ استعمال ہوا ہے اور اس مقدار کےمطابق کیاہوگا اورکب نتیجہ نکلے گا اس کےلیے عموما قضا(فیصلے)کالفظ استعمال ہوتاہے ۔ حقیقت میں ہرطرح کی مقدار کاتعین بھی اللہ ہی کےفیصلے سے ہوتاہے ۔ اللہ کافیصلہ حتمی ہے اسےوہ خو داگرچاہیے جب چاہے اورجس طرح چاہے بدل سکتا ہے ۔ اس بات کو رسول اللہﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے (لايرد القضاءالاالدعاء)’’دعا کے سوا کوئی چیز(اللہ کے)فیصلے کو بدل نہیں سکتی ۔‘‘جامع الترمذی،حدیث :2139)یعنی کوئی بھی کسی طرح سےبھی اللہ کےفیصلے کو نہیں بدل سکتا ۔ انسان یہی کرسکتا ہے کہ وہ اللہ کےسامنے دعا کرے۔ وہ چاہے تواسے قبول فرما کر اپنے فیصلے کو بدل دے۔یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ بھی پہلے سےاللہ کےعلم اوراختیار میں ہےکہ فرشتوں کو کون سا فیصلہ لکھ کر نافذ کرنے کےلیے دیاجائےگا اورکون کس کام کےلیے دعا کرے گا اورکون سی دعا قبول کرکے کون سافیصلہ بدل کر کس صورت میں نافذ کرنے کےلیے ملائکہ کےسپرد کیاجائےگا۔
امام مسلم نےصحیح مسلم کی کتاب القدر کاآغاز انسان کی پیدائش کے حوالے سے ان احادیث سے کیا ہے جن میں ماں کے پیٹ میں طے ہونےوالے مراحل عمر،عمل،رزق،خوش بختی یابدبختی اور اس حوالے سے تمام مقداروں کے تعین اوران کے لکھے جانے کے بارےمیں بتایا گیا ہے ۔ اس کی عمر اورعمل کی تمام تفصیلات حتی کہ اس کی سانسوں کی تعداد اور اس کے قدموں کے نشان کے کتنے ہوں گے اورکہاں کہاں لگیں گے سب کچھ فرشتے کو لکھوا دیا جاتا ہے ۔ یہ سب تفصیلات اس اصل کتاب کےمطابق ہوتی ہیں جوآسمانوں اورزمینوں کی تخلیق سےپچاس ہزار سال پہلے لکھ دی گئی تھی( حدیث :6748)پھر اس سوال کاجواب ہے کہ سب کچھ پہلے سے لکھا ہوا ہے تو ہم اسی پر بھروسہ کیوں نہ کریں، کیوں کریں؟ آپ ﷺ نے اس کاجواب یہ دیا کہ یہی لکھا ہوا ہے کہ کون ہے جو (اپنے اختیار اورفیصلے )خوش نصیبوں کے سے عمل کرےگا اورکون ہے جو(اپنے اورعمل اختیار سے)بدنصیبی کی راہ پر چلے گا۔ اورساتھ یہ سمجھایا کہ تقدیر کامطلب یہ ہےکہ انسان کاٹھکانا جنت یادوزخ میں کہاں ہوگا، اس بات کا اللہ تعالیٰ کو پہلے سےعلم ہے ۔ اللہ نے اپنے اختیار سےدونوں راستوں پر چلنے والوں کےلیے سہولت مہیا کردی ہے ۔ اللہ کو پورا علم ہے کہ کون انسان کس راستے پر چلے گا اوریہ سب کچھ تخلیق سےپہلے لکھ بھی دیا گیا۔ یہ لکھا ہوا عین اس کےمطابق ہے جوکسی بھی انسان نے کرنا ہے ۔ دونوں میں کوئی تفادت نہیں ۔صرف لکھے ہوئے کوپیش نظر رکھا جائے گا توتخلیق سےپہلے ہی پتہ ہے کہ کون تخلیق کےمرحلےسے گزرنے کےبعد کیا کچھ کرنےکافیصلہ کرکے کہاں پہنچے گا،جنتی ہوگا یاجہنمی ہوگا۔ یہ اہم نکتہ کہ جیسے منزل پہلے سے منعلوم ہے تویہ بھی پہلے سےمعلوم ہےکہ وہ اپنے اختیار سےعمل کیاکرےگا ۔ یہ پیشگی علم ہے یہ اس کےاختیار پرقدغن نہیں لگاتا، اس سے اس کی مرضی نہیں چھینتا ، اس کو طرف دھکیلتا نہیں، راستے دونوں طرف جانے کےمیسر ہیں۔
حضرت موسیٰ اورحضرت آدم کاجومکالمہ رسول اللہﷺ نےنقل فرمایا ہے اس سےیہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ نے نظام ہی یہی تخلیق فرمایا تھا کہ آدم کو جنت میں رکھا جائےگا۔ وہ اسے خوددیکھ لیں گے، پھرانہیں وہاں سے زمین پر منتقل کیا جائےگا۔ یہاں آکر بھی وہ خود اور ان کی اولاد جنت ہی متلاثی ہوگی جو طرح کی کوشش کےباوجود دنیوی زندگی میں زمین پر میسر نہ ہوئی ۔ اس کےحصول کاراستہ یہی ہوگا کہ اپنے اختیار اوراپنی صوابد ید سےجنت کی طرف جانے والاراستہ اختیار کرنا ہوگا۔ انسان کو جدن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیاگیا ہے اس کا امتحان یہی ہے کہ ان پر قابو پائے ۔ اگر نہ بھی پاسکے اور اللہ سے عفوورحمت کاطلبگار ہوتو وہ معزز ہے ۔اپنی کمزوریوں کے باوجود تمام مخلوقات میں افضل ہے،آدم اپنی خلقی کمزوریوں کے باوجود مسجود ملائک تھے ۔ وہ زمین پر لائے گئے، اس پر انہیں ملامت نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے خود بھی استغفار کاراستہ اختیار کیا اور اپنی اولاد کو بھی یہی راستہ دکھایا ۔ اس پر وہ ستائس اورشکر کےمستحق ہیں۔ بشری کمزریوں کےبالمقابل مغفرت اوررحمت اللہ کی عظیم ترین نعمت ہے ۔
رسول اللہﷺ نے جب یہ نکتہ سمجھایا کہ انسانوں کےدل اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کے تابع ہیں تو اس موقع پر اللہ کا عظیم ترین صفاتی نام الرحمان استعمال کیا۔ اس میں اشارہ ہےکہ اس کادلوں کوپھیرنا اس کی رحمت پر مبنی ہے ۔آدمی پچھلی غلطیوں پر مغفرت اورآیندہ ہدایت کاطلبگار ہو تو وہ بے پناہ رحمت سے کام لیتا ہے ۔ دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردیتاہے ۔ اگروہ یہ فیصلہ فرماتا کہ دلوں کو نہیں پھیرے گا تو بنی آدمی ایک بار بھٹک جانے کے بعد دوبارہ صحیح راستے پر نہ آسکتے۔
انسان اگرگناہ کا ارتکاب کرتاہے تو اس کی حدودبھی متعین کر دی گئی ہیں ۔ کوئی اپنی مقررہ حدود سے باہر نہیں نکل سکتا۔ نظام میں ایسا خلل نہیں ڈال سکتا جو انسانوں کی کامیابی کی راہ کو مسددو کردے یا اتنا زیادہ ہو جائے کہ خود اس کا اپنے گناہوں سےنکلنا ممکن ہے ۔ البتہ اگر وہ گناہ پر مسلسل اصرار کرتا ہے تواس کی پاکیزگی امانت اوراچھائی کی طرف رغبت کےساتھ زندگی عطا کرتاہے ۔
کسی بھی انسان کاانجام کیا ہوگا اس کے بارےمیں دنیا میں رہتے ہوئے کوئی اندازہ نہیں کرسکتا ۔ یہ معلوم ہے کہ اللہ کافیصلہ عدل بلکہ رحمت کی بنیاد پر ہوگا لیکن کیا ہوگا؟اس کےبارےمیں پوری طرح معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ کم عمری میں فوت ہونے والے بچوں کے بارےمیں ہونے والے فیصلے کاابھی تعین نہیں کیاجاسکتا۔ یہ اخفااس لیے ضروری ہے کہ لوگ نہ کبھی اللہ کے خوف سے بےبہرہ ہوجائیں، نہ رحمت سےمایوس ہوں۔ امیداورخوف کی کیفیت برقرار رہنی ضروری ہے تاکہ انسان کامیابی کے راستے کو اختیار کرے ۔اللہ سےرحمت ومغفرت مانگتا رہے اورامتحان کےلیے دنیا میں جن حالات سےگزارا جائے ان سے دل برا نہ کرے حالات کو قبول کرے اورہرطرح سےکامیابی کےحصول کےلیے کوشاں رہے۔
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اور انہوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس لڑکے کو حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا وہ طبعا کافر بنایا گیا تھا، اگر وہ زندہ رہتا تو زبردستی اپنے ماں باپ کو سرکشی اور کفر کی طرف لے جاتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
آپﷺ نے یہ بات سمجھائی کہ ہر بچہ ملت پر پیدا ہونے کے باوجود کچھ خارجی عوامل، مثلاً: پیدائش کے فوراً بعد شیطان کے اثرات بلکہ بعض سابقہ اجداد کی خرابیو ں کے اثرات اس میں پیدا ہو سکتے ہیں، اللہ تعالی کو علم تھا کہ مستقبل میں یہ بچہ اپنے نیک ماں باپ کے لیے بھی گمراہی کا سبب بنے گا، یہ اس کا کرم تھا کہ اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیاگیا، وہ بھی مستقبل کے گناہوں سے بچ گیا اور اس کے ماں باپ بھی بچ گئے۔ اس کی مثال دے کر آپﷺ نے جو بات بتائی وہ یہ ہے کہ خارجی عوامل کے اچھے برے اثرات خلقت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتے ہیں اور طبائع، جن کا خاصا اس کے آباء و اجداد تک کے اعمال پر ہوتا ہے مختلف ہےتے ہیں، اس لیے کسی بھی کم سن کے مرنے کے بعد جو کچھ ہونا ہے عام انسان اس کا اپنے طور پر کچھ سمجھ لینا اندازے سے کوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں،
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ جسے حضرت خضر نے قتل کیا تھا، اس پر کفر کی مہر لگی ہوئی تھی اور وہ زندہ رہتا تو اپنے والدین کو کفر اور سر کشی پر پھنسا دیتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
یہ بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوا تھا، لیکن اگر یہ زندہ رہتا تو برے ماحول میں بیٹھ کر کفر اختیار کر لیتا، اسے والدین اس کی محبت میں، اس کا رویہ اور طرز عمل قبول کرتے ہوئے سرکشی اور کفر میں مبتلا ہو جاتے، اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک اعمال کی برکت سے، ان پر رحم و کرم فرمایا اور اس بچے کو موت سے دوچار کر دیا اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے جو نہیں ہوا ہے، اگر اس نے ہونا ہوتا تو کیسے ہوتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ubayye bin Ka'b reported that Allah's Messenger (ﷺ) said: The young man whom Khadir killed was a non-believer by his very nature and had he survived he would have involved his parents in defiance and unbelief.