Muslim:
The Book of Knowledge
(Chapter: The Destruction Of Those Who Go To Extremes)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2670.
احنف بن قیس نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’غلو میں گہرے اترنے والے ہلاک ہو گئے۔‘‘ آپﷺ نے تین بار یہ بات ارشاد فرمائی۔
تشریح:
فائدہ:
تنطع یہ ہے کہ جو فطری طریقے پر فہم میں آ رہی ہے اس کے بارے میں مین میکھ نکالی جائے، وسوسوں اور دوراز کار اندیشوں میں پڑ کر اچھے عمل کو مشکل سے مشکل بنا لیا جائے۔
اس حصے میں ان اسباب کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے علم زائل ہو گا۔پہلا فتنہ اس طرح ہوگا کہ لوگ متشابہ آیات کے پیچھے پڑ جائیں گے،ظن وگمان سے اپنی مرضی کا مفہوم بیان کریں گے۔ایسے لوگوں سے بہت دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے اس کے بعدیہ مرحلہ آئے گا کہ قرآن کا مفہوم کسی نے سمجھ لیا ہوگا وہ نہ صرف اس پر ڈٹ جائے گا بلکہ ایسے لوگ ایک دوسرے سے جھگٗڑیں گئے۔آپﷺ نے اس حوالے یہ رہنمائی فرمائی کہ جونہی قرآن کے حوالے سے اختلاف کے آثار نمودار ہوں،اسی وقت اس پر مزید بات کرنے سے توقف اختیار کیا جائے اور جس پر سب متفق ہوں اسی کو اپنا کر عمل کیا جائے۔ایسا نہ کیا جائے گا تو اختلاف کا یہ مرحلہ سخت ترین جھگڑوں پر منتج ہوگا۔جھگڑالو لوگ سامنے آجائیں گے،پھر یہ مرحلہ آئے گا کہ لوگ قرآن اور سنت کو چھوڑ کر یہودیوں اور عیسائیوں کے طور طریقے اپنا لیں گے، ان کی اندھی تقلید کرنے لگیں گے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ علماء کو اٹھا لےگا اور جہلا لوگوں کے رہنمائے دین بن جائیں گے،وہ لوگوں کو گمراہی پر چلائیں گے ۔کتاب کے آخر میں امت کو گمراہی سے بچانے کے لیے یہ واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص اچھا کام کرے گا اور لوگ اس پر چلیں تو آغاز کرنے والے کو ان لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جو اچھا کام کر رہے ہوں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اور لوگ اس کے پیچھے چلیں گے تو اسے برائی کے پیچھے چلنے والوں کے برابر گناہ ہو گا ۔
احنف بن قیس نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’غلو میں گہرے اترنے والے ہلاک ہو گئے۔‘‘ آپﷺ نے تین بار یہ بات ارشاد فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
تنطع یہ ہے کہ جو فطری طریقے پر فہم میں آ رہی ہے اس کے بارے میں مین میکھ نکالی جائے، وسوسوں اور دوراز کار اندیشوں میں پڑ کر اچھے عمل کو مشکل سے مشکل بنا لیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بال کی کھال اتارنے والے تباہ ہوئے۔‘‘ آپﷺ نے یہ بات تین دفعہ فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
المتنطعون: غلو اور انتہائی پسندی اختیار کرنے والے، بال کی کھال اتارنے والے، کیونکہ تنطع کا معنی غلو اور تعمق ہے۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوا، بے مقصد اور بے فائدہ موشگافیاں کرنا اور حد سے بڑھنا پسندیدہ طرزعمل نہیں ہے، کیونکہ یہ بدعملی اور راہ فرار اختیار کرنے یا بہانہ سازی کا باعث بنتا ہے، جس طرح بنو اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے پوچھا، اس کی عمر کتنی ہو، جب یہ بتا دیا گیا تو کہا، اس کا رنگ کیسا ہو، یہ بتا دیا گیا تو کہنے لگے اور وضاحت کرو، کیونکہ ایسی گائیوں میں اشتباہ و التباس موجود ہے، لیکن ورع اور پرہیزگاری اختیار کرنا اور مشتبہ چیزوں سے بچنے کی کوشش کرنا مطلوب ہے، مثلا ایک کپڑا صاف ستھرا ہے اور ابھی بھی طے کر کے رکھا گیا ہے اور دوسرے کپڑے کے بارے میں شبہ ہے، اس پر کسی بچے کے بول کے چھینٹے پڑ گئے ہیں لیکن اس کو دھو دیا گیا ہے تو دوسرے کپڑے کی بجائے پہلا کپڑا لینا یہ غلو اور انتہا پسندی ہے۔ لیکن اگر کپڑا پاک صاف ہے اور دوسرے کپڑے کو گارا لگا ہے تو پہلے کپڑے کو لینا ورع اور پرہیزگاری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Ruined, were those who indulged in hair-splitting. He (the Holy Prophet) repeated this thrice.