باب: طہارت و پاکیزگی اور ( اس سے متعلق) دیگر امور کا دائیں طرف سے آغاز کرنا
)
Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: Starting on the right when purifying oneself and in other matters)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
269.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم دو سخت لعنت والے کاموں سے بچو!‘‘ صحابہ کرام ؓنے عرض کی: اے اللہ کے رسول!سخت لعنت والے وہ دو کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو انسان لوگوں کی گزرگاہ میں یا ان کی سایہ دار جگہ میں (جہاں وہ آرام کرتے ہیں) قضائے حاجت کرتا ہے (لوگ ان دونوں کاموں پر اس کو سخت برا بھلا کہتے ہیں)۔‘‘
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم دو سخت لعنت والے کاموں سے بچو!‘‘ صحابہ کرام ؓنے عرض کی: اے اللہ کے رسول!سخت لعنت والے وہ دو کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو انسان لوگوں کی گزرگاہ میں یا ان کی سایہ دار جگہ میں (جہاں وہ آرام کرتے ہیں) قضائے حاجت کرتا ہے (لوگ ان دونوں کاموں پر اس کو سخت برا بھلا کہتے ہیں)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لعنت کا باعث بننے والے دو کاموں سے بچو!‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لعنت کا سبب بنے والے دو کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو انسان لوگوں کی گزرگاہ یا ان کے سایہ میں قضائے حاجت کرتا ہے (لوگ اس کو برا بھلا کہیں گے)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1) اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ:یعنی وہ کام جو لعنت وطعن کا باعث بنتے ہیں،لوگوں کو برا بھلا کہنے پر آمادہ کرتے ہیں یا اس کی دعوت دیتے ہیں،یعنی عادتاً لوگ ایسا کام کرنے والے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ (2) ألتَّخَلِّيْ: قضائے حاجت کرنا۔ (3) طَرِيق النَّاسِ: لوگوں کی گزر گاہ جس جگہ لوگ آئیں جائیں۔(3) فِي ظِلِّهِمْ: ان کے سایہ کی جگہ، جس جگہ لوگ اٹھتے بیٹھتے ہوں،ٹھہریں، پڑاؤ کریں،قیلولہ کریں (ہر سایہ دار جگہ مراد نہیں)۔
فوائد ومسائل:
لوگ جس ر استہ پر چلتے ہوں یا سایہ کی جس جگہ آرام کرنے کے لیے بیٹھتے ہوں، اگر کوئی گنوار اورنادان آدمی وہاں قضائے حاجت کرے گا، تو لوگوں کو اس سے اذیت اور تکلیف پہنچے گی، جس کے باعث وہ اس کو بُرا بھلاکہیں گے اور لعنت کریں گے، اس لیے اس حرکت سے بچنا چاہیے۔ بعض حدیثوں میں ایک تیسری جگہ موارد (پانی کی گھاٹ) جہاں لوگ پانی کے لیے آتے جاتے ہوں، کا ذکر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر انسان کو گھر سے باہر قضائے حاجت کرنا، ہوتو وہ ایسی جگہ بیٹھے جہاں لوگوں کی آمدورفت نہ ہو اور لوگوں کے لیے باعث تکلیف نہ بنے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: The Messenger of Allah (ﷺ) said: Be on your guard against two things which provoke cursing. They (the companions present there) said: Messenger of Allah, what are those things which provoke cursing? He said: Easing on the thoroughfares or under the shades (where they take shelter and rest).