Muslim:
The Book of Repentance
(Chapter: Exhortation To Repent And Rejoicing Therein)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2747.
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی اور وہ (حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ) ان کے چچا ہیں، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ (بندہ) اس کی طرف توبہ کرتا ہے، تم میں سے کسی ایسے شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں اپنی سواری پر (سفر کر رہا) تھا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل (کر گم ہو) گئی، اس کا کھانا اور پانی اسی (سواری) پر ہے۔ وہ اس (کے ملنے) سے مایوس ہو گیا تو ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ وہ اپنی سواری (ملنے) سے ناامید ہو چکا تھا۔ وہ اسی عالم میں ہے کہ اچانک وہ (آدمی) اس کے پاس ہے، وہ (اونٹنی) اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے اس کو نکیل کی رسی سے پکڑ لیا، پھر بے پناہ خوشی کی شدت میں کہہ بیٹھا، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ خوشی کی شدت کی وجہ سے غلطی کر گیا۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
راوی اسحاق کے والد عبداللہ بن ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے مادری بھائی تھے۔ دونوں کی والدہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا تھیں۔
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی اور وہ (حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ) ان کے چچا ہیں، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ (بندہ) اس کی طرف توبہ کرتا ہے، تم میں سے کسی ایسے شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں اپنی سواری پر (سفر کر رہا) تھا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل (کر گم ہو) گئی، اس کا کھانا اور پانی اسی (سواری) پر ہے۔ وہ اس (کے ملنے) سے مایوس ہو گیا تو ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ وہ اپنی سواری (ملنے) سے ناامید ہو چکا تھا۔ وہ اسی عالم میں ہے کہ اچانک وہ (آدمی) اس کے پاس ہے، وہ (اونٹنی) اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے اس کو نکیل کی رسی سے پکڑ لیا، پھر بے پناہ خوشی کی شدت میں کہہ بیٹھا، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ خوشی کی شدت کی وجہ سے غلطی کر گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
راوی اسحاق کے والد عبداللہ بن ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے مادری بھائی تھے۔ دونوں کی والدہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا تھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقیناً جب اللہ کا کوئی بندہ اس کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس کو اپنے بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو اس وقت ہوتی ہے کہ وہ بیاباں جنگل میں اپنی سواری پر تھا تو وہ اس سے چھوٹ گئی جبکہ اس کا کھانا اور پینا اسی پر تھا تو وہ اس سے سواری سے ناامید ہو کر ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سایہ میں لیٹ گیا وہ اپنی سواری سے مایوس ہو چکا تھا وہ اس حالت میں تھا کہ وہ اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑی ہوئی پاتا ہے سو وہ اس کی مہار پکڑلیتا ہے پھر مسرت کی شدت میں مدہوش ہو کر کہتا ہے اے میرے اللہ!تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں مسرت کے بے پایاں ہونے کی بنا پر وہ چوک گیا (الفاظ الٹ دئیے)‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اگر انسان ایسے جنگل میں سوار ہو کر جارہو، جو بالکل سنسان اور بے آب وگیاہ ہو، جہاں کھانے پینے کے لیے کوئی چیز نہ ملتی ہو اور وہاں اس کی سواری گم ہو جائے، جس کے بغیر، وہ جنگل کا سفر طے نہ کر سکتاہو اور اس کے کھانے پینے کا سارا سامان بھی اس سواری پر ہو اور وہ اس کو تلاش کرتے کرتے تھک ہار جائے اور اس کو سواری کو پالینے کی امید مایوسی میں بدل جائے تو اس کو اپنی موت یقینی نظر آتی ہے اور پھر اچانک سامان زندگی سمیت سواری مل جائے تو اسے نئی زندگی ملنے کی فرواں خوشی ہوتی ہے، حتی کہ وہ فرط مسرت سے اپنے الفاظ پر بھی قابو نہیں رکھ سکتا اور آپے سے باہرہو کر ، اپنے رب کو اپنا بندہ بنا کر اس کا رب بن بیٹھتا ہے،گویا کہ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا ہے اور جب اللہ کا بندہ اس کی بندگی اور فرمانبرداری کی طرف لوٹتا ہے اور گناہ اور معصیت کی زندگی سے بچنے کا تہیہ کرلیتا ہے تو اللہ کو اس بے پایاں مسرت پانے والے بندے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔معلوم ہوتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی اپنے بندے کی توبہ سے مسرت اور شادمانی کا لحاظ مختلف مواقع پر کیا ہے اسی لیے موقع اور محل کے اعتبار سے اس کے بیان میں کچھ فرق واقع ہو گیا ہے،اصل مقصود تو انسان کو توبہ پر آمادہ کرنا اور اس کی ترغیب دینا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) reported that Allah's Messenger (ﷺ) said: Allah is more pleased with the repentance of a servant as he turns towards Him for repentance than this that one amongst you is upon the camel in a waterless desert and there is upon (that camel) his provision of food and drink also and it is lost by him, and he having lost all hope (to get that) lies down in the shadow and is disappointed about his camel and there he finds that camel standing before him. He takes hold of his nosestring and then out of boundless joy says: O Lord, Thou art my servant and I am Thine Lord. He commits this mistake out of extreme delight.