صحیح مسلم
53. کتاب: جنت،اس کی نعمتیں اور اہل جنت
7. باب: پہلے زمرے میں جنت میں داخل ہونے والے چودھویں کی رات کے چاند جیسے ہوں گے،ان کے احوال اور ان کی بیویوں کابیان
صحيح مسلم
53. كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها
7. بَابُ أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَصِفَاتُهُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ
Muslim
53. The Book of Paradise, its Description, its Bounties and its Inhabitants
7. Chapter: The First Group To Enter Paradise Will Look Like The Moon When It Is Full; Their Attributes And Their Spouses
باب: پہلے زمرے میں جنت میں داخل ہونے والے چودھویں کی رات کے چاند جیسے ہوں گے،ان کے احوال اور ان کی بیویوں کابیان
)
Muslim:
The Book of Paradise, its Description, its Bounties and its Inhabitants
(Chapter: The First Group To Enter Paradise Will Look Like The Moon When It Is Full; Their Attributes And Their Spouses)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2834.
اسماعیل بن علیہ نے کہا: ہمیں ایوب نے محمد (بن سیرین) سے خبر دی کہ (حصول علم کے لیے جمع ہونے والے مردوں اور عورتوں نے) باہمی اظہار، تفاخر یا علمی مذاکرہ کرتے ہوئے (اس موضوع پر) بات کی کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں؟ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا ابو القاسم ﷺ نے فرمایا نہ تھا: ’’پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہوگی ان کی صورتیں چودھویں رات کے چاند جیسی ہوں گی اور جو ان کے بعد جائے گی وہ آسمان میں سب سےزیادہ چمکتے ہوئے ستارے کی طرح ہو گی۔ ان میں سے ہر آدمی کی دو دو بیویاں ہوں گی (ایسے شفاف اور منور جسم والیں کہ) ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا۔ (پوری) جنت میں بیوی سے محروم کوئی شخص بھی نہ ہوگا۔‘‘
جنت اللہ کی رضا کا بلند ترین مقام ہے ۔ اللہ اپنے بندوں کی اپنی رضا، اپنے قرب اور اپنے جمال کی لذتوں اور دوسری نعمتوں سے سرفراز کرنے کے لیے جن سے صحیح طور پر لذت یاب ہونا انسان کی موجود خلت کی صلاحیتوں کے بس سے باہر ہے ، انسان کو ازسر نوخلقت عطا فرمائے گا۔اللہ کی جو نعمتیں اس کے بندوں کے لیے تیار کی گئی ہیں ،موجودہ زندگی میں نہ ان کا ادراک کیا جا سکتا ہے نہ تصور سماعت کے ذریعے سے بھی ان کا احاطہ ممکن نہیں اس بات کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ زندگی میں نعمتیں میسر ہیں وہ اتنی گھٹیا ، بے وقعت اور عارضی ہیں کہ ان کو جہنم کے راستوں میں بکھیر دیا گیا ہے وہ اس سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں جو نعمتیں اللہ کی رضا کی بلند ترین منزل میں میسر ہوں گی ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ)’’کسی انسان کو معلوم نہیں کہ ان کے لیے کیا کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے ۔‘‘ اگر رقبے اور نعمتوں کے حجم ہی کی بات کی جائے تو جنت کی وسعت اور اس کی ہر چیز اتنی بڑی ہے کہ موجودہ زندگی میں انسان اس کے سائز اور حجم کا ادراک نہیں کر سکتا ایک درخت ہی اتنا بڑا ہو گا کہ اس کے نیچے ایک سوار سو سال بھی چلتا رہے تو اس کے سائے کو عبور نہیں کر سکے گا۔
اس دنیا میں خوشحالی کی انتہا بد حالی پر ہوتی ہے اور بد حالی کی خوش حال پر کوئی نعمت ملے تو تھوڑی سی مہلت کے لیے ملتی ہے جنت میں اللہ کی رضا جس سے تمام قسم کی نعمتیں وابستہ مہلتوں اور وقفوں کے دائروں سے باہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگی ،اس کی نعمتیں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوں گی ۔اہل ایمان کے مراتب اتنے بلند ہوگے کہ ان کے قریب کی بات تو رہی ایک طرف ،ان کو اچھی طرح دیکھنا بھی ممکن نہ ہوگا ایسے نظر آئیں گے جیسے بلندی پر ستارے نظر آتے ہیں محبوب رب العالمین کے نظارہ جمال کی خاطر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کی قربانی کی قیمت بھی سستی ہوگی ۔تمام اہل جنت کے حسن و جمال میں ہر دم اضافے کی ہی کیفیت ہوگی کہ جنت کے بازار سے واپس آئیں گے تو گھر والوں کو نظر آئے گا کہ ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو چکا ہے اور آنے والوں کو اپنے گھر والے حسین تر نظر آئیں گے۔ سب سے اونچے درجے کے لوگ چاند کی طرح اور ان کے بعد تاروں کی طرح دمکتے ہوں گے تمام اہل جنت کا جمال ہر گھڑی بڑھنے والا ہو گا اس کیفیت کا دنیا میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا ان کے جمال کو گہنانے والی کوئی بات ان کے وجود میں نہیں ہوگی طرح طرح کے ماکولات اور مشروبات کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے لیکن وہ نعمتیں اتنی لطیف ہوں گی کہ ان کا کوئی حصہ فضلہ نہ بنے گا پیشاب پاخانے کی حاجت نہ ہو گی ایک ڈکار سے سب کچھ جزو بدن بن جائے گا ۔ان کا پسینہ تک کستور ی کی طرح خوشبو دار ہوگا یہ ہر اعتبار سے مکمل جمال ہے جس میں کہیں کوئی خامی موجود نہیں ۔
معاشرتی زندگی صرف لطف ، محبت اور موانست سے عبارت ہوگی ،کوئی منفی جذبہ کسی کے دل میں بھی پیدا نہیں ہو گا اللہ کی حمدوثنا سانسوں کی طرح جسم میں بسی ہوگی ۔ یہ ابدی نعمتیں ہوں گی جن کے زوال کا کوئی خدشہ نہیں ہوگا دنیا میں نیک مومنوں نے مشکلوں بھری زندگی کزاری ہوگی سرکشوں اور ظالموں کے ظلم سہے ہوں گے معمولی درجے کے لوگ ہوں گے اب ان تمام تکلیفوں کا ازالہ ہو جائے گا ان کے جسم حضرت آدم کے جسم کی طرح اونچے لمبے چوڑے ہوں گے اور اچھی طرح ہر قسم کی نعمتوں کا لطف اٹھائیں گے ۔دوسری طرف جہنم انسانی تصور اور اک سے بڑی عذابوں سے بھری ہوئی ہے اس کی گہرائی میں وہ سر کش لوگ داخل ہوں گے جو دنیا میں تکبر ،نخوت ،جبر اور ظلم کے مجسمے تھے جہنم کی وسعتیں اتنی ہوں گی کہ سارے برے لوگ اس میں ڈال دیے جائیں گے تب بھی ان کی بھوک نہیں مٹے گی اہل جہنم کا عذاب جہنم میں داخل ہونے سے پہلے بھی شروع ہو چکا ہوگا لوگ اپنے مال کے مطابق میدان حشر میں اپنے پسینے میں ڈوبے کھڑے ہوں گے جن پر رحمت ہو جائے گی ان کی بخشش ہو جائے گی اللہ کی رحمت اس کے غضب سے کہیں زیادہ وسیع ہے ،اس لیے جہنم میں داخلے کے بعد بھی بہت لوگوں کو اس کی رحمت کا سہارا ملے گا اور جہنم سے نکال کر ان کی حالت درست کر کے ان کو جنت کی طرف بھیجا جائے گا پھر اہل جنت اہل جنت اور اہل جہنم دونوں کے سامنے موت کو ختم کر دیا جائے گا اور جو شحص یہاں ہوگا ہمیشہ کے لے اسی کا مستحق ہو جائے گا جہنم کا عذاب بھی مسلسل برقرار رہے گا۔بڑے بڑے مشرک جس طرح شرک کی نئی رسمیں نکالنے والا عمر و بن لحی بن قمعہ بن خندف تھا دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے دنیا میں اپنے حسن کو فتنہ بنانے والی عورتیں جہنم بھر دیں گی ۔ایسی جہنم جس کا تعفن دور دور کے فاصلوں تک پھیلا ہوگا حساب سے پہلے حشر کے ہولناکیاں اور یوم قیامت کے مصائب اور اور ان سے بھی پہلے قبروں کے اندر نیک لوگوں کا آرام دہ قیام اور کافروں کا خوفناک انتظار اور مختلف شکلوں میں ان پر مسلط عذاب ایسا ہوگا کہ اگر لوگ دنیا کی زندگی میں اس سے آگا ہ ہو جائیں تو اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دیں۔
کتاب کے آخر میں امام مسلم نے وہ احادیث بیان کی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ نجات جس کی بھی ہوگی صرف اور صرف اللہ کی رحمت سے ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے نواز دے اور اپنے غضب سے اپنی پناہ میں رکھے یہ دعا ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو تلقین فرمائی۔
اسماعیل بن علیہ نے کہا: ہمیں ایوب نے محمد (بن سیرین) سے خبر دی کہ (حصول علم کے لیے جمع ہونے والے مردوں اور عورتوں نے) باہمی اظہار، تفاخر یا علمی مذاکرہ کرتے ہوئے (اس موضوع پر) بات کی کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں؟ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا ابو القاسم ﷺ نے فرمایا نہ تھا: ’’پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہوگی ان کی صورتیں چودھویں رات کے چاند جیسی ہوں گی اور جو ان کے بعد جائے گی وہ آسمان میں سب سےزیادہ چمکتے ہوئے ستارے کی طرح ہو گی۔ ان میں سے ہر آدمی کی دو دو بیویاں ہوں گی (ایسے شفاف اور منور جسم والیں کہ) ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا۔ (پوری) جنت میں بیوی سے محروم کوئی شخص بھی نہ ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، لوگوں نے فخر و مباہات کے لیے کہا، یا باہمی مباحشہ کیا کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں؟ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ’’جنت میں داخل ہونے والا یہ پہلا گروہ اسکی صورت چودہویں کے ماہ کامل کی سی ہو گی اور جو گروہ اس کے بعد ہوگا وہ آسمان کے سب سے زیادہ روشن اور جگمگاتے ستارے کی طرح ہو گی۔ ان میں سے ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی جن کی پنڈلیوں کا مغز، گوشت کے اندر سے دکھائی دے گا اور جنت میں کوئی انسان کنوارا نہیں رہے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) زُمرَة، گروہ،جماعت۔ (2) اُضوا: روشنی میں سب سے زیادہ چمکدار، ذُرِّي، روشن، أَعزَب یاعزب، غیر شادی شدہ، مجرد، کنوارا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Muhammad reported that some (persons) stated with a sense of pride and some discussed whether there would be more men in Paradise or more women. It was upon this that Abu Hurairah (RA) reported that Abu'l Qasim (the Holy Prophet) (ﷺ) said: The (members) of the first group to get into Paradise would have their faces as bright as full moon during the night, and the next to this group would have their faces as bright as the shining stars in the sky, and every person would have two wives and the marrow of their shanks would glimmer beneath the flesh and there would be none without a wife in Paradise.