باب: بیت اللہ کا رخ کرکے والے لشکر کا زمین میں د ھنس جانا
)
Muslim:
The Book of Tribulations and Portents of the Last Hour
(Chapter: The Earth Swallowing Up The Army That Aims To Attack The Ka'bah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2883.
امیہ بن صفوان سے روایت ہے ،انھوں نے اپنے داداعبداللہ بن صفوان کو کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ایک لشکر (اللہ کے) اس گھر کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اس کا رخ کرےگا یہاں تک کہ جب وہ زمین کے چٹیل حصے میں ہوں گے تو ان کے درمیان والے حصے کو (زمین میں ) دھنسا دیا جائے گا ان میں سے ایک علیحدہ رہ جانے والے شخص کےسوا، جو ان کے بارے میں خبر دے گا اور کوئی (زندہ) باقی نہیں بچے گا۔‘‘ تو ایک شخص نے (ان کی بات سن کر) کہا: میں تمہارے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جھوٹ نہیں باندھا اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہوں کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں جھوٹ نہیں کہا۔
انبیائے کرام نے انسانوں کے نام اللہ کاپیغام پہنچاتے ہوئے آغاز اس بات سے کیا کہ عارضی دنیوی زندگی کے اختتام پر ہر انسان کو ایک مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ موجودہ زندگی میں باز پرس ہوگی۔ جوناکام ہوجائے گا وہ دردناک عذاب کا شکار ہوجائےگا۔ سب سےپہلے رسول حضرت نوح نے اپنے پیغام کا آغاز اس طرح کیا(يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ) ’’اےمیری قوم!بلاشبہ میں تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والاہوں۔‘‘(نوح 71۔2)اورسب سے آخری رسول ﷺ نے سب سےپہلے خطاب عام میں پیغام کاآغاز ان الفاظ سے کیا (اني نذيرلكم بين يدي عذاب شديد)’’بلاشبہ میں سخت عذاب کےآنے سےپہلےتمہیں ڈرانے والا ہوں ۔‘‘(صحیح بخاری ،حدیث:4770)
انسان دنیا کےمعاملات میں جس طرح مستغرق ہوتاہے اسے اپنے مقصد زندگی پر غور کرنے اور آخرت کی کامیابی کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی نہیں کہ اسے زندگی کے حتمی انجام، یعنی موت اور اس کے مابعد کی طرف متوجہ کرکے جنھجوڑا جائے اور ابدی ناکامی کے عواقب سے ڈرایا جائے ۔ رسول اللہﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔ آپ سے پہلے کے انبیاء اپنے اپنے بعد آنے والے انبیاء ورسل خصوصا نبی آخرالزمان کی آمد کی خبر دیتے اور حصول نجات کےلیے ان کی اطاعت کی تلقین کرتے تھے۔ آپﷺ کے بعد کسی اور رسول کے نہیں آنا، اب قیامت آنی ہے ۔ یہ انسانیت کے لیے بیدار ہونے کا آخری موقع ہے ۔ آپﷺ نے بطور پوری شدت سے انسانیت کو جنھجوڑا اور جگایا۔ بعثت کے بعد قرآن مجید کی جو سورتیں ابتدائی سالوں میں نازل ہوئیں ان میں قیامت کی اس طرح منظر کشی کی گئی ہے کہ ایک سلیم الفطرت انسان لرز جاتا ہے اور اللہ کے خوف اورقیامت کی ہولناکیوں پر مضطرب ہوجاتا ہے ۔ کسی اور آسمانی کتاب میں اس اندر سے اتنی تاکید اور تکرار سے قیامت کی منظر کشی نہیں ملتی ۔
قیامت کے حوالے سے رسول اللہﷺ نے زیادہ زوراس پہلو پر دیا کہ وہ انتہائی قریب ہے ، وہ اس طرح آپ کی بعثت کے قریب ہے ،جس طرح انگشت شہادت اور اس کے ساتھ انگلی باہم قریب قریب ہیں۔
جس طرح بارش کی آمد کا سلسلہ آندھی،پھر ٹھنڈی ہواؤں ،پھر بادلوں کی آمد، پھر گرج اورچمک سےشروع ہوتاہے اور پھر اچانک بارش برسنے لگتی ہے ، اسی طرح قیامت آنے کی ابتدائی نشانیاں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک ہی میں شروع ہوگئیں ،آپ کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ وحشی اقوام جو اپنے اپنے علاقوں تک محدود رکھی گئی ہیں، قیامت سے پہلے بڑے پیمانے پر انسانوں اوروسائل زندگی کی تباہی کاباعث بنیں گی، ان کے راستے کی رکاوٹیں دور ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ ابھی عربوں کے عروج کا آغاز ہوا ہی تھا کہ آپ کو یہ بھی مشاہدہ کرایاگا کہ جب عربوں کو شوکت ورفعت نصیب ہوگی ساتھ ہی اس شرکا بھی آغاز ہوجانے گا جوان کی تباہی اور زوال کاسبب بنے گا۔ ان کے عروج کا یہ زمانہ لمبا نہیں، ان کو حاصل ہونے والی شوکت وحشمت جلد ہی دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔
آپﷺ ساتھیوں سمیت مدینہ کی اونچی عمارتوں میں سے ایک عمارت پر تشریف فرما تھے تو عالم مثال میں آپ کو دکھایا گیا کہ خود آپ کے شہر مدینہ پر نازل ہونے والے فتنوں کے مقدمات کی برسات شروع ہوگئی ہے جو عام انسانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اموال،مناصب اور پھر کچھ عرصہ بعد دور درازعلاقوں کے عرب جنہوں نے مدینہ کارخ کیا اور پھر عجمی لوگ جو اپنی اپنی سوچ لے کر غلاموں وغیرہ کی صور ت میں مدینہ پہنچے، انہوں نے ایسے افکار کو ہوادی جن کی بنا پر اولین مسلمانوں کے درمیان نہ صرف اختلافات پیدا ہوئے بکلہ خون ریزی کابھی آغاز ہوگیا۔ قیامت کے مقدمات کے طور پر بالکل ابتدائی فتنے جو مسلمان معاشرے حتی کہ مدینہ میں درآئے وہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف ہی کی صورت میں تھے۔ حضرت عمر کے زمانے تک ان پرسختی سے کنٹرول رہا۔ اس کے باوجود نہ صرف کثرت سے مدینہ میں داخل ہونے لگے بلکہ ان کی قوت اور تعداد میں بہت اضافہ ہوگیا۔ حضرت عمر ان کے آگے بند دروازہ تھے لیکن ان فتنوں کی قوت نے یہ دروازہ توڑدیا۔ حضرت عمر کو شہید کردیاگیا اور فتنوں کا راستہ کھل گیا۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور خون ریزی کے بارےمیں رسول اللہﷺ نے نہ صرف صحابہ کو خبردار دیا بلکہ اس دوران میں نجات کے راستے کی نشاندہی بھی کی جس پر چل کر مسلمان تباہی سے بچ سکتے تھے۔
آپﷺ نےجہاں جزیرہ عرب کے اردگرد کی طاقتور ترین اور امیر ترین سلطنتوں کے خلاف مسلمانوں کی کامیابی کی پیشین گوئی فرمائی، جس پر سننےوالوں کی عقلیں دنگ رہ گئیں،وہاں آپ نے اس بات سےبھر خبردار فرمایا کہ دنیا بھر کے خزانے میں آجانے کے بعد مسلمانوں کی آزمائش کا سخت ترین دور شروع ہوجائےگا۔ مخاصمت اور خانہ جنگی کا خطرناک دور شروع ہوجائےگا،فتنے ایسے ہوں گے جو اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لےلیں گے۔ وہی بچے گا جو ان سے دور رہنےمیں کامیاب ہوجائےگا۔عام معاشرے سےکنارہ کشی اختیار کر لےگا، دنیاوی معاملات میں اپنی تک ودو کو محدود کر لے گا ۔ بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے کھڑے ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، آپس کے اختلافات ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر منتج ہوں گے۔ آپ نے اپنے عہد مبارک کے فورا بعد سےلے کر قیامت تک نمودار ہونے والی قیامت کی علامات کی خبردی ۔ آپ نے صحابہ کے اجتماعات میں خطبات ارشاد فرمائے اور ایسے موثر انداز میں آنے والے واقعات کی تفصیلات بیان فرمائیں کہ صحابہ زارہ قطار روتے رہے۔یہ علامات کچھ لوگوں نے زیادہ یاد رکھیں اور کچھ نے کم، کچھ صحابہ نے زیادہ تفصیلات سمیت ان کو بیان کیا ، کچھ فتنے چھوٹے تھے کچھ بڑے،سننے والوں اورآگے ان سے سننے والوں نے اپنی اپنی یادداشت کے مطابق بیان کیا۔ ضرورت پڑنے پر متعلقہ حصہ بیان کیا، اس لیے اس ترتیب کا اہتمام برقرار نہ رہ سکا جو بیان کرتے وقت ملحوظ تھی لیکن بیان کی ہوئی نشانیاں اپنی اصل ترتیب کے مطابق سامنے آنے لگیں اور قیامت تک سامنے آتی رہیں گی ۔ عہد رسالت سےآج تک اور آج سے قیامت تک کاکوئی دور ایسانہیں جوان علامات کے ظہور سےخالی ہو۔انسانیت کو بالعموم اورامت مسلمہ کو بالخصوص تسلسل سے یاد ہانی کرائی جارہی ہے کہ اب فلاں نشانی سامنے آگئی ہے، اب قیامت کاوقت اور قریب آگیا ہے ۔ کسی سوچنے سمجھنے اور اپنے انجام پر نظر رکھنے والے انسان کے پاس یہ کہنے کا کوئی موقع نہیں کہ رسول اللہﷺ کی بتائی ہوئی قیامت کی نشانیاں بھولی بسری باتیں بن گئی تھیں،
امیہ بن صفوان سے روایت ہے ،انھوں نے اپنے داداعبداللہ بن صفوان کو کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ایک لشکر (اللہ کے) اس گھر کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اس کا رخ کرےگا یہاں تک کہ جب وہ زمین کے چٹیل حصے میں ہوں گے تو ان کے درمیان والے حصے کو (زمین میں ) دھنسا دیا جائے گا ان میں سے ایک علیحدہ رہ جانے والے شخص کےسوا، جو ان کے بارے میں خبر دے گا اور کوئی (زندہ) باقی نہیں بچے گا۔‘‘ تو ایک شخص نے (ان کی بات سن کر) کہا: میں تمہارے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جھوٹ نہیں باندھا اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہوں کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں جھوٹ نہیں کہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’بیت اللہ پر حملہ کے ارادے سے ایک لشکر اس کا رخ کرے گا جب یہ لوگ چٹیل زمین میں پہنچیں گے ان کے درمیانی حصہ کو دھنسا دیا جائے گا اور پہلا حصہ آخری حصے کو آواز دے گا پھر ان سب کو بھی دھنسا دیا جائے گا بس وہ بھگوڑا بچے گا، جو ان کے بارے میں جا کر اطلاع دے گا۔‘‘ چنانچہ ایک آدمی نے کہا میں گواہی دیتا ہوں تم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جھوٹ نہیں باندھا اور میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں گواہی دیتا ہوں، انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Safwan reported that Hafsa told him that she had heard Allah's Apostle (ﷺ) as saying: An army would attack this House in order to fight against the inhabitants of this House and when it would be at the plain ground the ranks in the centre of the army would be sunk and the vanguard would call the rear flanks of the army and they would also be sunk and no flank would be left except some people who would go to inform them (their kith and kin). A person (who had been listening to this hadith from 'Abdullah bin Safwan) said: I bear testimony in regard to you that you are not imputing a lie to Hafsa. And I bear testimony to the fact that Hafsa is not telling a lie about Allah's Apostle (ﷺ) .