Muslim:
The Book of Tribulations and Portents of the Last Hour
(Chapter: Ibn Sayyad)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2929.
محمد بن منکدرسے روایت ہے، کہا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا، وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ابن صائد دجال ہے۔ میں نے کہا: آپﷺ (اس بات پر) اللہ کی قسم کھا رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کے پاس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات پر قسم کھاتے ہوئے دیکھا تھا اور نبی کریم ﷺ نے اس پر انکار نہیں فرمایا تھا۔
تشریح:
فائدہ:
اس کے بارے میں بعض لوگوں کو یقین تھا کہ وہ دجال ثابت ہو گا اور بعض کو یقین نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خیال کی تائید کے لیے قسم کھا کر بات کی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی نہ اس بات کو غلط کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کو معلق ہی رہنے دیا، اور فرمایا: ’’اگر وہ دجال ہے تو تم اسے قتل نہیں کر سکو گے کیونکہ اسے حضرت عیسی علیہ السلام نے قتل کرنا ہے، اور اگر وہ حقیقی دجال نہیں تو اس کو قتل کرنا بے فائدہ ہے۔‘‘
انبیائے کرام نے انسانوں کے نام اللہ کاپیغام پہنچاتے ہوئے آغاز اس بات سے کیا کہ عارضی دنیوی زندگی کے اختتام پر ہر انسان کو ایک مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ موجودہ زندگی میں باز پرس ہوگی۔ جوناکام ہوجائے گا وہ دردناک عذاب کا شکار ہوجائےگا۔ سب سےپہلے رسول حضرت نوح نے اپنے پیغام کا آغاز اس طرح کیا(يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ) ’’اےمیری قوم!بلاشبہ میں تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والاہوں۔‘‘(نوح 71۔2)اورسب سے آخری رسول ﷺ نے سب سےپہلے خطاب عام میں پیغام کاآغاز ان الفاظ سے کیا (اني نذيرلكم بين يدي عذاب شديد)’’بلاشبہ میں سخت عذاب کےآنے سےپہلےتمہیں ڈرانے والا ہوں ۔‘‘(صحیح بخاری ،حدیث:4770)
انسان دنیا کےمعاملات میں جس طرح مستغرق ہوتاہے اسے اپنے مقصد زندگی پر غور کرنے اور آخرت کی کامیابی کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی نہیں کہ اسے زندگی کے حتمی انجام، یعنی موت اور اس کے مابعد کی طرف متوجہ کرکے جنھجوڑا جائے اور ابدی ناکامی کے عواقب سے ڈرایا جائے ۔ رسول اللہﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔ آپ سے پہلے کے انبیاء اپنے اپنے بعد آنے والے انبیاء ورسل خصوصا نبی آخرالزمان کی آمد کی خبر دیتے اور حصول نجات کےلیے ان کی اطاعت کی تلقین کرتے تھے۔ آپﷺ کے بعد کسی اور رسول کے نہیں آنا، اب قیامت آنی ہے ۔ یہ انسانیت کے لیے بیدار ہونے کا آخری موقع ہے ۔ آپﷺ نے بطور پوری شدت سے انسانیت کو جنھجوڑا اور جگایا۔ بعثت کے بعد قرآن مجید کی جو سورتیں ابتدائی سالوں میں نازل ہوئیں ان میں قیامت کی اس طرح منظر کشی کی گئی ہے کہ ایک سلیم الفطرت انسان لرز جاتا ہے اور اللہ کے خوف اورقیامت کی ہولناکیوں پر مضطرب ہوجاتا ہے ۔ کسی اور آسمانی کتاب میں اس اندر سے اتنی تاکید اور تکرار سے قیامت کی منظر کشی نہیں ملتی ۔
قیامت کے حوالے سے رسول اللہﷺ نے زیادہ زوراس پہلو پر دیا کہ وہ انتہائی قریب ہے ، وہ اس طرح آپ کی بعثت کے قریب ہے ،جس طرح انگشت شہادت اور اس کے ساتھ انگلی باہم قریب قریب ہیں۔
جس طرح بارش کی آمد کا سلسلہ آندھی،پھر ٹھنڈی ہواؤں ،پھر بادلوں کی آمد، پھر گرج اورچمک سےشروع ہوتاہے اور پھر اچانک بارش برسنے لگتی ہے ، اسی طرح قیامت آنے کی ابتدائی نشانیاں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک ہی میں شروع ہوگئیں ،آپ کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ وحشی اقوام جو اپنے اپنے علاقوں تک محدود رکھی گئی ہیں، قیامت سے پہلے بڑے پیمانے پر انسانوں اوروسائل زندگی کی تباہی کاباعث بنیں گی، ان کے راستے کی رکاوٹیں دور ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ ابھی عربوں کے عروج کا آغاز ہوا ہی تھا کہ آپ کو یہ بھی مشاہدہ کرایاگا کہ جب عربوں کو شوکت ورفعت نصیب ہوگی ساتھ ہی اس شرکا بھی آغاز ہوجانے گا جوان کی تباہی اور زوال کاسبب بنے گا۔ ان کے عروج کا یہ زمانہ لمبا نہیں، ان کو حاصل ہونے والی شوکت وحشمت جلد ہی دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔
آپﷺ ساتھیوں سمیت مدینہ کی اونچی عمارتوں میں سے ایک عمارت پر تشریف فرما تھے تو عالم مثال میں آپ کو دکھایا گیا کہ خود آپ کے شہر مدینہ پر نازل ہونے والے فتنوں کے مقدمات کی برسات شروع ہوگئی ہے جو عام انسانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اموال،مناصب اور پھر کچھ عرصہ بعد دور درازعلاقوں کے عرب جنہوں نے مدینہ کارخ کیا اور پھر عجمی لوگ جو اپنی اپنی سوچ لے کر غلاموں وغیرہ کی صور ت میں مدینہ پہنچے، انہوں نے ایسے افکار کو ہوادی جن کی بنا پر اولین مسلمانوں کے درمیان نہ صرف اختلافات پیدا ہوئے بکلہ خون ریزی کابھی آغاز ہوگیا۔ قیامت کے مقدمات کے طور پر بالکل ابتدائی فتنے جو مسلمان معاشرے حتی کہ مدینہ میں درآئے وہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف ہی کی صورت میں تھے۔ حضرت عمر کے زمانے تک ان پرسختی سے کنٹرول رہا۔ اس کے باوجود نہ صرف کثرت سے مدینہ میں داخل ہونے لگے بلکہ ان کی قوت اور تعداد میں بہت اضافہ ہوگیا۔ حضرت عمر ان کے آگے بند دروازہ تھے لیکن ان فتنوں کی قوت نے یہ دروازہ توڑدیا۔ حضرت عمر کو شہید کردیاگیا اور فتنوں کا راستہ کھل گیا۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور خون ریزی کے بارےمیں رسول اللہﷺ نے نہ صرف صحابہ کو خبردار دیا بلکہ اس دوران میں نجات کے راستے کی نشاندہی بھی کی جس پر چل کر مسلمان تباہی سے بچ سکتے تھے۔
آپﷺ نےجہاں جزیرہ عرب کے اردگرد کی طاقتور ترین اور امیر ترین سلطنتوں کے خلاف مسلمانوں کی کامیابی کی پیشین گوئی فرمائی، جس پر سننےوالوں کی عقلیں دنگ رہ گئیں،وہاں آپ نے اس بات سےبھر خبردار فرمایا کہ دنیا بھر کے خزانے میں آجانے کے بعد مسلمانوں کی آزمائش کا سخت ترین دور شروع ہوجائےگا۔ مخاصمت اور خانہ جنگی کا خطرناک دور شروع ہوجائےگا،فتنے ایسے ہوں گے جو اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لےلیں گے۔ وہی بچے گا جو ان سے دور رہنےمیں کامیاب ہوجائےگا۔عام معاشرے سےکنارہ کشی اختیار کر لےگا، دنیاوی معاملات میں اپنی تک ودو کو محدود کر لے گا ۔ بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے کھڑے ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، آپس کے اختلافات ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر منتج ہوں گے۔ آپ نے اپنے عہد مبارک کے فورا بعد سےلے کر قیامت تک نمودار ہونے والی قیامت کی علامات کی خبردی ۔ آپ نے صحابہ کے اجتماعات میں خطبات ارشاد فرمائے اور ایسے موثر انداز میں آنے والے واقعات کی تفصیلات بیان فرمائیں کہ صحابہ زارہ قطار روتے رہے۔یہ علامات کچھ لوگوں نے زیادہ یاد رکھیں اور کچھ نے کم، کچھ صحابہ نے زیادہ تفصیلات سمیت ان کو بیان کیا ، کچھ فتنے چھوٹے تھے کچھ بڑے،سننے والوں اورآگے ان سے سننے والوں نے اپنی اپنی یادداشت کے مطابق بیان کیا۔ ضرورت پڑنے پر متعلقہ حصہ بیان کیا، اس لیے اس ترتیب کا اہتمام برقرار نہ رہ سکا جو بیان کرتے وقت ملحوظ تھی لیکن بیان کی ہوئی نشانیاں اپنی اصل ترتیب کے مطابق سامنے آنے لگیں اور قیامت تک سامنے آتی رہیں گی ۔ عہد رسالت سےآج تک اور آج سے قیامت تک کاکوئی دور ایسانہیں جوان علامات کے ظہور سےخالی ہو۔انسانیت کو بالعموم اورامت مسلمہ کو بالخصوص تسلسل سے یاد ہانی کرائی جارہی ہے کہ اب فلاں نشانی سامنے آگئی ہے، اب قیامت کاوقت اور قریب آگیا ہے ۔ کسی سوچنے سمجھنے اور اپنے انجام پر نظر رکھنے والے انسان کے پاس یہ کہنے کا کوئی موقع نہیں کہ رسول اللہﷺ کی بتائی ہوئی قیامت کی نشانیاں بھولی بسری باتیں بن گئی تھیں،
تمہید باب
ابن صیاد یا ابن صائد ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔اس کا نام"صاف"یا صافی تھا ۔بچپنسے اس کے اطواروانداز عجیب تھے۔اس میں دجال کی عام نشانیوں میں سے کچھ نشانیاں بھی نظر آتی تھیں(دیکھئے۔جامع ترمذی۔حدیث نمبر۔2248)اس باب کی احادیث سے پتہ چلتاہے کہ کچھ غیر مرئی(شیطانی)قوتوں سے اس کا ر ابطہ تھا۔جیسے کاہنوں وغیرہ کا ہوتا ہے۔اس کی بعض باتوں سے یہ شک ہوتا تھا کہ وہ دجال ہوسکتا ہے ۔صحابہ( رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کو یہ شک ہوا بھی۔رسول اللہ ﷺنےاس سے بات چیت کرکے اور اس کی بے خبری میں اس کے پاس سے آنے والی آوازوں یا اس کی بڑبڑاہٹ سن کرا س کی حقیقتجاننے کی کوشش فرمائی۔لیکن اس کا معاملہ مشکوک ہی رہا۔آپ نے اس کے ساتھرابطہ رکھنے والی نادیدہ قوتوں کو آزمانے کے لیے اس سے سوال بھی کیا توپتہ چلا کہ وہ غیر معمولی قوتوں کا حامل نہیں اس لیے آپ نے اسے نظر انداز فرمادیا۔اس نے اسلام قبول کرنے کا دعویٰ بھی کیا اور حج وغیرہ بھی کیا،لیکن اسکی مشتبہ باتوں کی بناء پرآخر تک صحابہرضوان اللہ عنھم اجمعین کے سامنے اس کامعاملہ مشکوک ہی رہا اس سے علانیہ طور پر اور صریح اندازمیں کوئی ایسا کام سر زد نہ ہوا جس کی بناء پر اس کے خلاف کوئی رسمی کاروائی ہوتی۔بعض علماء کا خیال ہے کہ وہ بڑ ا دجال تو نہ تھا لیکن اس تیس دجالوں میں سے ایک ہوسکتا ہے جن کی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی۔رسول اللہ ﷺنے براہ راست اللہ تعالیٰ سےاس کی حقیقت جاننے کے بجائے خود اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوششفرمائی۔مقصود یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ ﷺکی اُمت آپ ﷺکے طریقے پر عمل کرتے ہوئے خود اس طرح کے لوگوں کی حقیقتپہچاننے کی کوشش کرے اور ہمیشہگمراہی سے محفوظ رہے
محمد بن منکدرسے روایت ہے، کہا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا، وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ابن صائد دجال ہے۔ میں نے کہا: آپﷺ (اس بات پر) اللہ کی قسم کھا رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کے پاس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات پر قسم کھاتے ہوئے دیکھا تھا اور نبی کریم ﷺ نے اس پر انکار نہیں فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
اس کے بارے میں بعض لوگوں کو یقین تھا کہ وہ دجال ثابت ہو گا اور بعض کو یقین نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خیال کی تائید کے لیے قسم کھا کر بات کی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی نہ اس بات کو غلط کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کو معلق ہی رہنے دیا، اور فرمایا: ’’اگر وہ دجال ہے تو تم اسے قتل نہیں کر سکو گے کیونکہ اسے حضرت عیسی علیہ السلام نے قتل کرنا ہے، اور اگر وہ حقیقی دجال نہیں تو اس کو قتل کرنا بے فائدہ ہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ اللہ کی قسم اٹھا رہے ہیں کہ ابن صیاد دجال ہے تو میں نے کہا، کیا آپ اللہ کی قسم اٹھاتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا، میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس پر قسم اٹھاتے نہیں سنا، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اعتراض نہیں کیا، یا آپ نے اس کا انکار نہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
ابن صیاد کے دجال ہونے میں تو کوئی شک شبہ نہیں ہے، اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ وہی دجال اکبر یعنی مسیح دجال ہے، یا دجال اصغر ہے، دجال اکبر، آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا، بعض کا خیال ہے، یہی دجال اکبر کی صورت میں ظاہر ہوگا اور بعض کا خیال ہے، آخری دجال اور ہے، جیسا کہ حضرت تمیم داری کی حدیث میں ہے، لیکن اس کی حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دجال اکبر پیدا ہوچکا ہے، موجود ہے، لیکن اس کا ظہور آخری زمانہ میں ہوگا، اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کو قتل کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Muhammad bin Munkadir reported: As I saw Jabir bin 'Abdullah taking an oath in the name of Allah that it was Ibn Sa'id who was the Dajjal I said: Do you take an oath in the name of Allah? Thereupon he said: I heard 'Umar taking an oath in the presence of Allah's Apostle (ﷺ) to this effect but Allah's Apostle (ﷺ) did not disapprove of it.