باب: حجر کے باسیوں کے ہاں داخل ہونے کی ممانعت مگر یہ کہ داخل ہونے والا روتا ہوا اندر جائے
)
Muslim:
The Book of Zuhd and Softening of Hearts
(Chapter: The Prohibition Of Entering Upon The People Of Al-Hijr (The Rocky Tract) Unless One Enters Weeping)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2981.
شعیب بن اسحٰق نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے نافع سے خبر دی انھیں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (سفر کرنے والے لوگ سرزمین ثمود حجر میں اتر گئے اور وہاں کے کنوؤں سے پانی حاصل کیا اور اس کے ساتھ آٹا (بھی) گوندھ لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ ’’انھوں نے جو پانی بھرا ہے وہ بہا دیں اور گندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دیں اور ان سے کہا: کہ وہ اس کنویں سے پانی حاصل کریں جہاں (حضرت صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی) اونٹنی پانی پینے کے لیے آیا کرتی تھی۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
عذاب کا شکار ہونے علاقے میں کنوؤں کے پانی میں ایسی چیزیں موجود ہوسکتی ہے ہے جو جسمانی طور پر نقصان پہنچائیں۔ یہ ایمان رکھنے والوں حسن ذوق کے بھی خلاف ہے۔ کہ جن کنوؤں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، وہاں کے پانی کو ایک نعمت سمجھ کر استعمال کیا جائے۔ روحانی اعتبار سے بھی یہ پانی مضرت رساں ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ دنیا بنو آدم کا اصل وطن نہیں ۔یہ جگہ تکلیفوں ،صدموں،خطروں اور آفتوں سے بھری ہوئی ہے ۔ٖآدم اور ان کی اولاد کا وطن وہی جگہ ہے جسے حاصل کرنے خواہش اس کے خون میں موجزن ہے آدم کے جس بیٹے بیٹی نے اپنی فطرت کی حفاظت کی اپنے خالق و مالک پالنے والے اور نعمتوں سے نوازے والے پروردگار سے اپنا تعلق نہیں توڑا اسے معلوم ہے کہ اس کا اصل وطن کونسا ہے اور اس نے وہاں پہنچنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے ،کہ اس دارالمحن میں اسے ہر صورت ایک متعین مدت کے لیے گزارنا ہے اور جب یہ میعاد پوری ہو جائے گی تو وہ اس قید خانے سے پرواز کر یگا اور اپنے خوبصورت ترین ،ابدی نعمتوں سے بھرے ہوئے اور ہر طرح کی تکلیفوں سے محفوظ وطن میں پہنچ جائے گا ۔وہاں سے ہمیشہ اپنے محبت کرنے والے انتہائی محبوب اور رحیم و کریم رب کے انتہائی قرب میں زندگی گزارے گا،جہاں ہر آن نئے سے نیا انعام اس کا منتظر ہو گا۔
دوسری طرف آدم کا وہ بیٹا /بیٹی جس نے اپنی فطرت کو اپنے بدترین دشمن کے پاس گروی رکھ دیا اپنے رحیم وکریم پروردگار سے اپنا ناتا توڑ لیا اور اپنے بدترین دشمن کے اس جھوٹ کا اعتبار کر لیا کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے لذت کا سامان صرف وہی ہے ، وہ اس دنیا کے متاع فریب کا شکار ہو جائے گا،اپنی منزل کو بھلا دے گا،حقیقی وطن کے طرف جانے والے راستے کو چھوڑ دے گا اور اس گٹھیا زندگی کی جھوٹی اور عارضی دلفریبیوں کے پیچھے چلتا ہوا تباہی کے گڑھے میں گر جائے گا۔اپنے دشمن کے فریب میں آ کر اس نے جس جھوٹی جنت میں دل لگایا تھا وہ بھی اس سے چھن جائے گی۔یہ دنیا حقیقتاً ایک قید خانہ ہے جس کی اصلیت سے مومن آگاہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے جس کے فریب ہونے اسے تب پتہ چلے گا جب وہ حتمی بتاہی کا شکار ہو چکا ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس دنیا کی اصلیت کو واشگاف کرنے والی ایک مثال سے اولاد آدم کو اس دنیا کے فریب سے بچانے کی کوشش فرمائی ۔یہ اس بدصورت کان کٹے بکری کے بچے سے بھی زیادہ حقیر ہے جسے اپنی مختصر زندگی کے بعد مر کر متعفن ہو جانا اور گندگی میں بدل جانا ہے اس دنیا کی ساری نعمتیں اسی طرح کی ہیں تھوڑی دیر کے لیے دلکش اور جلد ہی بدل جانے والی ہیں سب سے زیادہ وہ دانا اور سب سے کامیاب انسان وہی ہو سکتا ہے جو اسی وقت میں اس نعمت سے فائدہ اٹھائے جبکہ وہ نہیں بدلی ،کھائے ،پہن لے اور جو بچے اسے نسخہ کیمیا کے ذریعے سے انتہائی بیش قیمت اور لافانی بنا کر ایسے ذریعے سے اپنے حقیقی وطن اور اپنے دائمی گھر کی زیب و زینت بنانے کے لیے آگے روانہ کر دے کہ وہاں پہنچے تک وہ لمحہ بیش قیمتی اور عظیم تر ہوتا جائے نسخہ کیمیا یہ ہے کہ ہر نعمت کو اپنے رب کی رضا کے ساتھ وابستہ کر دے اور اس کے راستے میں دے کر اسے آگے بھجوا دے۔اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو یہ نعمتیں اس قبر تک پہنچا کر واپس ان لوگوں کے پاس آجائیں گی جو انہیں سینت سینت کر رکھیں گے اور وہ گندگی میں بدلتی فنا ہوتی جائیں گی یا پھر ان کی قسمت اچھی ہوئی تو جو کام یہ جانے والا نہیں کر سکا وہ کر گزریں گے اور انھیں آگے روانہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے دنیا کی اکثر نعمتیں اسی دنیا میں گندگی میں بدلتی رہتی ہیں اور جو نہیں بدلتیں وہ تپ کر انگارہ بنتی رہتی ہیں ، اسی کو جلا ڈالتی ہیں ،وہ ان سے چمٹا رہتا ہے ۔رسول اللہﷺ نے ہر موقع پر اپنی امت کو کامیابی کے ان سنہرے اصولوں سے آگاہ کیا اور بہترین تربیت فرمائی۔ جب فاقوں میں زندگی گزار کر ایثار کرنے والے انصار بحرین سے مال آجانے کی خبر سن کر فاقے اور احتیاج کی شدت سے بچنے کی امید لے کر آپ کی خدمت میں آبیٹھے تو آپ نے انھیں اس مال میں سے اپنے حصے کی نوید بھی عطا کی اور اس سے کروڑ زیادہ قیمتی اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ فاقے میں جو امتحان ہوتا ہے وہ اس امتحان سے بہت آسان ہے جو مال کی فراوانی کے ذریعہ سے ہوتا ہے وہی اہل ایمان جو فاقوں کے عالم میں ایثار اور مواسات کے راستے پر چل رہے ہیں مال آجانے کے بعد ان میں سے بہت لوگ دنیا داری میں مقابلے کا شکار ہو جائیں گے ،ایثار کے بجائے ایک دوسرے سے منہ موڑ لیں گے اور مواسات کے بجائے باہمی حسد اور بغض کا شکار ہو جائیں گے۔آپ نے اس امتحان میں سرخرو ہونے کا نسخہ یہ بتایا کہ دنیا اور مال کے معاملے میں اس کی طرف دیکھنے کی بجائے جو تم سے اوپر ہے،اس کی طرف دیکھنا جو تم سے کم تر ہے اور اپنی حالت کو یاد رکھنا جو دنیا کی نعمتیں ملنے سے پہلے تھی اور یاد ر کھنا کہ تم خود اپنی خوبصورت شکل و صورت ، صحت و عافیت ،سننے ، بولنے ،دیکھنے کی صلاحیت اور مال و دولت خود بنا کر ساتھ نہیں لائے ، نہ تمہارے پاس ایسا کرنے کی طاقت ہے یہ سب کچھ تمھیں دینے والے نے دیا ہے یہ اسی کے کام آئے گا جس نے آنکھوں سے دیکھنے کے ساتھ دل سے دیکھنے کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا۔ دینے والے کا احسان یاد رکھا ، اس کے نام پر دینے کو بوجھ نہ سمجھا۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی سابقہ امت کے تین آدمیوں کا قصہ سنا کر اپنی امت کو منزل کا پتہ بتایا اور وہاں تک پہنچانے والے راستے پر لا کھڑا کیا ۔وہ اپنے نصیب کو روئے جو آپ کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر دشمن کے پیچھے چل پڑ۔ جنھوں نے آپ ﷺکے راستے کو نہ چھوڑا وہ حضرت سعد بن ابی وقاص جیسے ہیں انھوں نے یاد رکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :اللہ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو ،غنی اور گم نام و گوشہ نشین ہو ۔وہ عتبہ بن غزوان جیسے تھے جو فقرو فاقہ کے عالم میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں گزاری ہوئی زندگی کی لذتوں کو بھلا نہ پائے تھے اور دوسروں کی بھی یہی راستہ دکھاتے رہتے تھے ۔حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس نے بھی امت کے سامنے اس سبق کو دہرایا جو رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے انجام کے حوالے سے لکھایا تھا جو دنیا کے فریب میں آکر اپنے رب کو بھلا دیتے ہیں اور اس سے تعلق توڑ لیتے ہیں۔حضرت انس ،ابوہریرہ،نعمان بن بشیر اور سب سے بڑھ کر ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے کھول کھول کر بتایا کہ رسول اللہ ﷺ امت کو دیے ہوئے سبق پر خود کس طرح عمل فرماتے تھے رزق تک کے معاملے میں آپ کی دعا ہی یہ تھی ’’ کہ الے اللہ آل محمد کا رزق زندگی بر قرار رکھنے جتنا کر دے ‘‘اور یہ زندگی اس طرح برقرار رہتی ہے کہ مہینوں چولہا نہ جلتا تھا ساراگھر کبھی مسلسل وہ راتیں جو کی روٹی پیٹ بھر کے نہ کھاتا تھا ۔ بہت خوش حالی میں میں بھی مسلسل تین راتوں سے زیادہ گندم کی روٹی نہ کھائی تھی گزر ان دو چیزوں پر تھی کھجور اور پانی پر، بلکہ جب آپ کے گھر والوں کو یہ دونوں چیزیں پیٹ بھر کر ملنے لگیں تو آپ دنیا چھوڑ کر آگے روانہ ہوئے۔
یہاں کی زندگی میں تو ردی کھجور بھی اتنی میسر نہ تھی کہ پیٹ بھر جاتا،آپ کے تربیت یافتہ صحابہ مکھن اور ایک سے زیادہ قسم کی کھجوروں کو تعیش خیال کرتے تھے اور جس گھر میں بیوی کے ساتھ کوئی خدمت گزار بھی میسر ہوتا تو اسے بادشاہ قرار دیتے تھے فقیری میں فائدہ یہ تھا کہ فقرا،مسلمان اغنیاء سے چالیس سال پہلے جنت میں جا بستے ہیں رسول اللہ ﷺ نے دنیا کی لذتو ں میں غرق ہو کر عذاب کا شکار ہونے والوں کے کنویں کے پانی سے گندھا ہوا آٹا بھی اپنے ساتھیوں کو استعمال نہ کرنے دیا اور سواری کے اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور یہ نکتہ سکھایا کہ سوچو جو شخص اپنی زندگی ہی ثمود والوں کی طرح دینا کی لذتوں میں غرق ہو کر گزار دے گا وہ کس طرح اللہ کے غضب کا شکار ہوگا۔
اس کے بعد امام مسلم نے وہ احادیث بیان کیں جن میں سکھایا گیاکہ اپنے مال کے ذریعے سے اللہ کی رضا اور اس کا قرب کیسے حاصل ہو سکتا ہے ۔بیوہ عورتوں،مسکینوں اور یتیموں کی خبر گیری کا کیا انعام ملتا ہے ،مسجدیں بنانے اور مسافروں کا خیال رکھنے کا اجر کیا ہے ساتھ ہی وہ احادیث بیان کیں جن میں بتایا کیا ہے کہ یہ اچھے کام ضائع کس وجہ سے ہوتے ہیں بلکہ برے اور قابل سزا ہو جاتے ہیں ۔ریاکاری کیا ہے زبان کو بے احتیاطی سے استعمال کرنے پر کیا تباہی آتی ہے دوسروں کو اچھی تلقین کرنے اور خود عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ،تکبر کا شکار ہو کر اپنے گناہوں کا اشتہار لگانے والا کس انجام کو پہنچا ہے ، اللہ کی رضا کے لیے چھوٹے چھوٹے کام کرنے پر کتنے بڑے انعامات مل سکتے ہیں اس کے بر عکس جس کی فطرت مسخ ہو جائے ،بعید نہیں کہ اس کی خلقت بھی مسخ ہو جائے ،اسے انسان سے تبدیل کر کے کوئی حقیر جانور بنا دیا جائے ۔ انسان خود بھی تکبر سے بچے،دوسروں کو بھی تکبر کا نشانہ نہ بننے دے۔ ہر بڑے چھوٹے کا حق ادا کرے فرامین رسول ﷺ پر مشتمل عمل و حکمت کا یہ خزانہ انسانیت کی ہدایت اور فلاح کا ضامن ہے اس کا صحیح تحفظ بھی عظیم اجر کا سبب ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر ہے جنھیں پغمبروں کی تعلیمات اور سچی ہدایت کی حقیقی قدر معلوم تھی۔وہ زندہ آگ میں جل گئے اور ہدایت سے دستبردار نہ ہوئے۔
پھر امام مسلم نے حضرت ابویسر اور حضرت جابر کی زبانی اس زندگی کے نمونے پیش کیے جو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں بسر ہوئی ،پھر رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کی جھلکیاں، آپ کی سکھائی ہوئی حکمت کے نمونے ،آپ کی دنیا سے بے رغبتی اللہ کی راہ میں مستعدی اور آپ کے بے کنار فیض اور آپ کی عظیم ترین برکتوں اور اس زندگی اور اس کے بعد امت کے ہر فرد سے آپ کی یہ جھلکیاں اور زندگی کے ہر مرحلے حتی کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کے ہر موڑ پر آپ کے طر عمل اور رویے کے جمال انسان کے دل کو موم بنانے کا سامان ہے آپ کی سیرت کا ہر نقش آپ کے ساتھ اہل ایمان کی محبت کو فروزاں تر کرنے کا یقینی ذریعہ ہے ۔
شعیب بن اسحٰق نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے نافع سے خبر دی انھیں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (سفر کرنے والے لوگ سرزمین ثمود حجر میں اتر گئے اور وہاں کے کنوؤں سے پانی حاصل کیا اور اس کے ساتھ آٹا (بھی) گوندھ لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ ’’انھوں نے جو پانی بھرا ہے وہ بہا دیں اور گندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دیں اور ان سے کہا: کہ وہ اس کنویں سے پانی حاصل کریں جہاں (حضرت صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی) اونٹنی پانی پینے کے لیے آیا کرتی تھی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
عذاب کا شکار ہونے علاقے میں کنوؤں کے پانی میں ایسی چیزیں موجود ہوسکتی ہے ہے جو جسمانی طور پر نقصان پہنچائیں۔ یہ ایمان رکھنے والوں حسن ذوق کے بھی خلاف ہے۔ کہ جن کنوؤں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، وہاں کے پانی کو ایک نعمت سمجھ کر استعمال کیا جائے۔ روحانی اعتبار سے بھی یہ پانی مضرت رساں ثابت ہو سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہﷺ کی معیت میں ثمود کے علاقہ حجر میں اترے تو اس کے کنوؤں سے پانی کھینچا اور اس سے آٹا گوندھا، تو رسول اللہ ﷺنے حکم دیا جو پانی کھینچا ہے اس کو بہا دیں اور آٹا اونٹوں کو کھلادیں۔ اور انہیں نے اس کنویں سے پانی نکالنے کا حکم دیا، جہاں اونٹنی آیا کرتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
جن کنووں سے ثمودی پانی پیتے تھے، وہ نجس یا پلید نہ تھا، صرف ان کی سیرت و کردار سے نفرت و کراہت کے اظہار کے لیے ان کے کنووں سے پانی نکالنے سے منع کیا گیا، حیوانات چونکہ مکلف نہیں ہیں، اس لیے آٹا ان کو کھلا دیا گیا اور جس کنویں پر اونٹنی آتی تھی، اس کا پتہ آپ کو وحی کے ذریعہ چل گیا، یا شہرت سے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin 'Umar reported that the people encamped along with Allah's Messenger (ﷺ) in the valley of Hijr, the habitations of Thamud, and they quenched their thirst from the wells thereof and kneaded the flour with it. Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) commanded that the water collected for drinking should be spilt and the flour should be given to the camels and commanded them that the water for drinking should be taken from that well where the she-camel (of Hadrat Salih) used to come.