باب: نماز اور جن (اعمال) سے نماز کا افتتاح اور اختتام ہوتا ہے، ان کا جامع بیان، رکوع اور اس میں اعتدال
)
Muslim:
The Book of Prayers
(Chapter: The Description Of The Prayer, With What It Begins And Ends. The Description Of Bowing And Moderation Therein, And Of Prostration And Moderation Therein. Tashah-hud After Each Two Rak'ah Of Four Rak'ah Prayers. Description Ol Sitting Between The Two Prostrations, And In The First Tashah-hud)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
498.
محمد بن عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو خالد احمر نے حسین معلم سے حدیث سنائی، نیز اسحاق بن ابراہیم نے کہا: (الفاظ انہی کے ہیں)، ہمیں عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، کہا: ہمیں حسین معلم نے حدیث بیان کی، انہوں نے بدیل بن میسرہ سے، انہوں نے ابو جوزاء سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا، انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نماز کا آغاز تکبیر سے اور قراءت کا آغاز ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن﴾ سے کرتے اور جب رکوع کرتے تو اپنا سر نہ پشت سے اونچا کرتے اور نہ اسے نیچے کرتے بلکہ درمیان میں رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدے میں نہ جاتے حتیٰ کہ سیدھے کھڑے ہو جاتے اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو (دوسرا) سجدہ نہ کرتے حتیٰ کہ سیدھے بیٹھ جاتے۔ اور ہر دو رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا لیتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح (دونوں پنڈلیاں کھڑی کر کے) پچھلے حصے پر بیٹھنے سے منع فرماتے اور اس سے بھی منع فرماتے کہ انسان اپنے بازو اس طرح بچھا دے جس طرح درندہ بچھاتا ہے، اور نماز کا اختتام سلام سے کرتے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے، اگر اب تک میسر سائنسی معلومات کو بنیاد بنایا جائے تو انسان ہی سب سے عقلمند مخلوق ہے جس نے عناصر قدرت سے کام لے کر اپنے لیے قوت و طاقت کے بہت سے انتظامات کر لیے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بہت ہی کمزور ، بار بار مشکلات میں گھر کر بے بس ہو جانے والی مخلوق ہے جو اپنی زندگی کے اکثر معاملات میں دوسروں کی مدد کی محتاج ہے، دوسروں پر انحصار کرتی ہے، اپنے مستقبل کے حوالے سے ہر وقت خدشات کا شکار اور خوفزدہ رہتی ہے۔ ان میں سے جو انسان ایک قادر مطلق پر ایمان سے محروم ہیں، ان میں سے اکثر دوسری ایسی مخلوقات کا سہارا لیتے اور ان کو اپنا محافظ ، اپنا رازق اور خالق سمجھتے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے ہیں جو ان کی پہنچ سے دور ہوں یا جن کی اپنی کمزوریوں سے انسان بے خبر ہوں۔ مظاہر فطرت کی پوجا، بتوں کی پوجا، دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش حتی کہ ہاتھیوں، بندروں اور سانپوں کی عبادت کمزور انسان کی خوفزدگی اور اس کی احتیاج کی دلیل ہے۔
اللہ کے بھیجے ہوئے دین نے انسان کو یہ سکھایا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ بھی تمھاری طرح بلکہ تم سے بڑھ کر کمزور اورمحتاج ہیں ۔ وہ محض ایک ہی ذات ہے جس کے ساتھ کسی کی کوئی شراکت داری نہیں اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔ ہر قوت اس کے پاس ہے۔ ہر نعمت کے خزانوں کا مالک وہی ہے۔ اس نے سبھی کو پیدا کیا۔ وہ بھی پیدا ہونے کا یا کسی بھی اور چیز کا محتاج تھانہ آیندہ بھی ہوگا۔ وہ ہماری عبادت کا بھی محتاج نہیں بلکہ ہم ہی اس کے قرب، اس کی رحمت، اس کی مہربانی اور اس کی سخاوت کے محتاج ہیں ۔ اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجانے سے ہماری کمزوری طاقت میں، ہماری احتیاج فراوانی میں بدل سکتی ہے اور ہمارا خوف عمل سلاتی
کے احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
تمام انبیاء کا مشن یہی تھا کہ انسان اس ابدی حقیقت کو سمجھ لے اور اس قادر مطلق کا قرب حاصل کرنے کے لیے عبادت کاصحیح طریقہ اپنا لے ۔ اس وقت جتنے آسمانی دین موجود ہیں ان میں سب سے مکمل، سب سے خوبصورت اور سب سے آسان طریقہ عبادت وہ ہے جو اسلام نے سکھایا ہے۔ ان اسلامی عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز ہے۔ نماز کا ارادہ کرتے ہی خیر ، برکت اور کسب اعمال صالحہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ طہارت اور وضو سے انسان ظاہری اور باطنی کثافت اور میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے اور نماز میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وہ اللہ کے حضور بازیاب ہو جا تا ہے۔اس عبادت میں بندہ گا ہے اپنے جیسے بہت سے عبادت گزاروں کے ساتھ مل کر جذب و سرمستی میں اللہ کو پکارتا، اس سے حال دل کہتا اور اس کے سامنے زاری کرتا ہے اور گاہے تنہائی کے عالم میں اپنے رب کے سامنے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سرگوشی اور مناجات کرتاہے(1)صحيح مسلم ،المساجد،باب النهى عن البصاق فى المسجد،حديث:1230(551) عبادت کایہ مکمل اورسب سےخوبصورت طریقہ خود الله تبارک و تعالی نے کائنات کے افضل ترین عبادت گزار (عبد) محمد رسول اللہﷺ کو سکھایا اور انھوں نے انسانیت کو اس کی تعلیم دی۔آپ کی نمازکی کیفیتیں کیاتھیں؟ان کی تفصیل صحیح مسلم کی كتاب الصلاة ،كتاب المساجد،كتاب صلاة المسافرين اورمابعدکےابواب میں بالتفصیل مذکور ہے۔ جن خوش نصیب لوگوں نےاس عبادت کاطریقہ براہ راست رسول اللہﷺ سےسیکھا،وہ اس کی لذتوں سےصحیح طورپرآشناتھے،مثلاحضرت انس انہیں یادکرکےبےاختیارکہتےتھے:ماصليت ورآءإمام قط أخف صلاة ولاأتم صلاة من رسولﷺ’’میں کبھی کسی امام کےپیچھےنمازنہیں پڑھی جس کی نمازرسول اللہﷺ کی نمازسےزیادہ ہلکی اورمکمل ترین ہو۔ ‘‘(2)صحيح مسلم،الصلاة،باب أمرالأئمة بتخفيف الصلاةفى تمام، حديث:1054(469)یہ نمازباجماعت کی کیفیت تھی۔ رات کی تنہائیوں میں آپ کی نمازکیسی تھی، حضرت عائشہؓ بتانابھی چاہتی ہیں اوراس سےزیادہ کہہ بھی نہیں سکتیں:يٌصلى أربعافلاتسأل عن حسنهن وطولهن ،ثم يصلى أربعافلاتسال عن حسنهن وطولهن ’’آپ چاررکعتیں پڑھتےاورمت پوچھوکہ ان کی خوبصورتی کیاتھی اورطوالت کتنی تھی،پھرآپ چاررکعتیں ادافرماتے،نہ پوچھوکہ ان کاجمال کیساتھا،کتنی لمبی ہوتی تھیں۔‘‘(3) صحيح مسلم،صلاة المسافرين وقصرها، باب الصلاة الليل ،حديث:1723(738)یہ لذتیں محسوس کی جاسکتی تھیں لیکن زبان ان کےبیان سےقاصرتھی۔ قرآن مجیدنےاس عبادت کاتذکرہ اس طرح کیاکہ اس مشاہدہ کرنےوالےاس کی طرف کھچےچلےآتےتھےاوراس میں مستغرق ہوجاتےہیں: ﴿وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا﴾ ’’اورجب اللہ کابندہ اس کوپکارنےکھڑاہوا،تووہ اس پرگروہ درگروہ اکٹھےہونےلگے۔ ‘‘الجن19:72)محدثین نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے حوالے سے وہ ساری تفصیلات انتہائی جانفشانی سے جمع کر کے یکجا کر دیں جو صحابہ کرام نے بیان کی تھیں۔ آج اگر ذوق وشوق کی کیفیتوں میں ڈوب کر ان کا مطالعہ کیا جائے تو پورا منظر سامنے آ جاتا ہے، جو حسن و جمال کا بے مثال مرقع ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد فتنوں کا دور آیا۔ بے شمار انسانوں کے عقائد اور اعمال اس کی زد میں آئے منع زکاة، ارتد او،خوارج وغیرہ کے باطل عقائد اسی فتنے کی تباہ کاریوں کے چند پہلو ہیں ۔ اس دور کا مطالعہ کیا جائے تو عبادات اور اعمال میں سہل انگاری، غفلت اور لاپروائی حتی کہ جہالت کی ایسی کیفیتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بنو امیہ کے دور میں نماز جیسے اسلام کے بنیادی رکن کی کیفیت ایسی ہوگئی تھی کہ حضرت انس بنانے اس کے سبب سے باقاعدہ گریہ میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ لوگوں اور ان کے حکمرانوں نے اس دور میں اوقات نماز تک ضائع کر دیے تھے۔ امام زہری کہتے ہیں: میں دمشق میں حضرت انس نے کے ہاں حاضر ہوا تو آپ رورہے تھے۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے جو آپ کو رلا رہی ہے؟ فرمایا: میں نے عہد رسالت مآب ﷺ میں جو کچھ دیکھا تھا اس میں نماز ہی رہ گئی تھی، اب یہ بھی نماز بھی ضائع کردی گئی ہے۔ (4) صحيح البخارى ،مواقيت الصلاة ،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:530)آپ سےنمازکےبارےمیں یہ الفاظ بھی منقول ہیں ،رسول اللہﷺ کےعہدمیں جوکچھ ہوتاتھاان میں سےکوئی چیزنہیں جومیں پہچان سکوں(سب کچھ بدل گیاہے۔)کہاگیا:نماز(توہے!)فرمایاکیااس میں بھی تم نےوہ سب کچھ نہیں کردیاجوکردیاہے۔(1) صحيح البخارى ،مواقيت الصلاة ،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث :529) جامع ترمذی کی روایت کےالفاظ ہیں تم نےاپنی نمازوں میں وہ سب کچھ نہیں کرڈالاجس کاتمھی کوپتہ ہے۔ (2)جامع الترمذى ،صفة القيامة،باب حديث إضاعة الناس الصلاة،حديث2447)ایک اور روایت میں ہے، ثابت بنانی کہتے ہیں : ہم حضرت انس بن مالک کے ساتھ تھے کہ حجاج نے نماز میں تاخیر کر دی،حضرت انس کھڑے ہوئے، وہ اس سے بات کرنا چاہتے تھے، ان کے ساتھیوں نے حجاج سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انھیں روک دیا تو آپ وہاں سے نکلے ، سواری پر بیٹھے اور راستے میں کہا: رسول اللہﷺ کے عہد مبارک کی کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے لا الہ الا اللہ کی شہادت کے ۔ ایک آدمی نے کہا: ابوحمزه! نماز؟ تو فرمایا تم نے ظہر کی نماز مغرب میں پہنچا دی! کیا رسول اللہ ﷺ کی نماز یہ تھی۔ (3)فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)حکمرانوں کی جہالت کی وجہ سے خرابی کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور سوائے چند اہل علم کے باقی لوگ اسی ناقص اور بگاڑی ہوئی نماز کےعادی ہو گئے ۔ حافظ ابن حجر نے امام عبدالرزاق کے حوالے سے مشہور تابعی عطاء کا واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ولید بن عبد الملک نے جمعے میں تاخیر کی حتی کہ شام ہوگئی، میں آیا اور بیٹھنے سے پہلے ظہر ادا کر لی، پھر اس کے خطبے کے دوران میں بیٹھے ہوئے اشارے سے عصر پڑھی۔ اشارے سے اس لیے کہ عطاء کو خوف تھا کہ اگر انھوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو انھیں قتل کردیا جائے گا۔(4) فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)اکثر لوگ حکمرانوں کے اس عمل ہی کو اسلام سمجھتے تھے، ان کو اس بات کا احساس تک نہ تھا کہ یہ سب رسول اللہ ﷺکی سنت کے خلاف ہے۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے عالم کو بھی مدینہ کا گورنر مقرر ہونے تک اصل اوقات نماز کا علم نہ تھا۔ وہ مدینہ کے گورز ہو کر آئے تو ایک دن انھوں نے عصر کی نماز میں تاخیر کر دی۔ عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے، جب وہ عراق میں گورنر تھے، ایک دن نماز میں تاخیر کر دی تو حضرت ابو مسعود انصاری (بدری) آپ کے پاس آئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ جبریل نے نازل ہوکر نماز پڑھائی .... .( پانچویں نماز یں، ایک دن ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر اور دوسرے دن ہر نماز کے وقت آخر میں پڑھائیں۔) اس پر عمر بن عبدالعزیز نے عروہ سے کہا: دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ کیا واقعی جبریل نے رسول اللہﷺ کے لیے نماز کے وقت کی نشاندہی کی ؟ عروہ نے جواب دیا: بشیر بن ابی مسعود اپنے والد (بدری صحابی ابومسعود انصاری) سے اس طرح بیان کرتے تھے۔(5) فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة وفضلها،حديث:521)نماز کے طریقے میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوگئیں۔ صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جہاد شروع کیا، پھر محدثین نے، جو علم حدیث میں ان ہی کے جانشیں تھے، اس جہاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کی تمام تفصیلات پوری تحقیق اور جستجو کے بعد امت کے سامنے پیش کر دیں اور امت کو رسول اللهﷺ کے اس فرمان مبارک پر کماحقہ عمل کا موقع فراہم کیا کہ «صلوا كما رأيتموني أصلي» تم اسی طرح نماز ادا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘(1)صحيح البخارى ،الأذان،باب الأذان للمسافرين،حديث:631)یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس صورت میں جس عمل کا عادی ہوتا ہے ہمیشہ اسی کو درست سمجھتا ہے اور ہر صورت میں اس کے دفاع کی کوشش کرتا ہے۔ محدثین کے سامنے بہت بڑا اور كٹھن مشن تھا، انھوں نے نادان حکمرانوں کی سر پرستی میں راسخ شده عادات کے خلاف اتنا مؤثر جہاد کیا کہ اب ان لوگوں کے سامنے، جو عادت کی بنا پر اصرار اور ضد کا شکار نہیں ، رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ اور آپ کا منور طر یق عمل روز روشن کی طرح واضح ہے۔امام مسلم نے کتاب الصلاة، کتاب المساجد، کتاب صلاة المسافرین اور بعد کے ابواب میں خوبصورت ترتیب سےصحیح اسناد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی نماز کی مکمل تفصیلات جمع کردی ہیں ۔ محدثین کے عظیم الشان کام کے بعد امت کے فقہاء اور علماءکے استنباطات، چاہے وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، محدثین کی بیان کردہ اانہی احادیث کے گرد گھومتے ہیں۔ تمام فقہی اختلافات کے حوالے سے بھی آخری اور حتمی فیصلہ صرف اور صرف وہی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ ﷺصادر فرما دیا اور جسے محدثین نے پوری امانت داری سے امت تک پہنچا دیا ہے۔
محمد بن عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو خالد احمر نے حسین معلم سے حدیث سنائی، نیز اسحاق بن ابراہیم نے کہا: (الفاظ انہی کے ہیں)، ہمیں عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، کہا: ہمیں حسین معلم نے حدیث بیان کی، انہوں نے بدیل بن میسرہ سے، انہوں نے ابو جوزاء سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا، انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نماز کا آغاز تکبیر سے اور قراءت کا آغاز ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن﴾ سے کرتے اور جب رکوع کرتے تو اپنا سر نہ پشت سے اونچا کرتے اور نہ اسے نیچے کرتے بلکہ درمیان میں رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدے میں نہ جاتے حتیٰ کہ سیدھے کھڑے ہو جاتے اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو (دوسرا) سجدہ نہ کرتے حتیٰ کہ سیدھے بیٹھ جاتے۔ اور ہر دو رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا لیتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح (دونوں پنڈلیاں کھڑی کر کے) پچھلے حصے پر بیٹھنے سے منع فرماتے اور اس سے بھی منع فرماتے کہ انسان اپنے بازو اس طرح بچھا دے جس طرح درندہ بچھاتا ہے، اور نماز کا اختتام سلام سے کرتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کا آغاز تکبیر سے اور قرأت کا آغاز ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن﴾ سے کرتے اور جب رکوع کرتے تو اپنا سر نہ (پشت) سے اونچا کرتے اور نہ اسے نیچا کرتے بلکہ دونوں کے درمیان رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، سجدہ نہ کرتے حتیٰ کہ سیدھے بیٹھ جاتے اور ہر دو رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا لیتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی بیٹھک سے منع فرماتے اور اس سے بھی منع فرماتے کہ انسان اپنی باہیں یا کلائیاں درندے کی طرح بچھا دے اور نماز کا اختتام السَّلام علیکم وَرَحمتہ اللّٰہ وَ بَرَکاتہ سے کرتے۔ اور ابن نمیر کی ابو خالد سے روایت میں عُقبَةِ الشَّیطَان کی جگہ عَقِبِ الشَّیطَان ہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَه وَلَمْ يَصَوِّبْ: اشخاص بلند کرنے اور اٹھانے کو کہتے ہیں، اور تصویببہت نیچا کرنے کو۔ مقصد یہ ہے کہ اشخاص اور تصویب میں اعتدال اور توسط اختیار کرتے۔(2)عُقْبةاور عقب کا معنی ہے، کتے اور درندے کی طرح سرین زمین پر رکھ لینا اور پنڈلیاں کھڑی کرکے ہاتھ زمین پر رکھ لینا۔
فوائد ومسائل
(1) نماز آغاز﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن﴾ سے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآءت کا آغاز سورہ فاتحہ سے کرتے یہ معنی نہیں ہے کہ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے اور قرآءت سے بھی پہلے آپ دعائے استفتاح پڑھتے تھے کیونکہ بسم اللہ تو پڑھنی ہوتی ہے۔ اختلاف تو اس کے جہر یا سر میں ہے کہ بلند پڑھیں گے یا آہستہ- (2) رکوع میں پشت کو بالکل ہموار اور برابر رکھا جائے گا اور سر کو بھی نہ اونچا کیا جائے گا اور نہ نیچا اعتدال اور توسط کے ساتھ پشت کی سطح پر رکھا جائے گا اس طرح رکوع کے بعد قومہ اور دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ میں سکون اور اطمینان کے ساتھ ہر عضو اور جوڑ کو اپنی اپنی جگہ پر آنے کا موقع دیا جائے گا تیز رفتاری اور عجلت سے کام نہیں لیا جائے گا۔
(3) ہر دو رکعت کے بعد التحیات کے لیے بیٹھیں گے امام احمد اور محدثین کے نزدیک دونوں تشہد ضروری ہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دونوں واجب ہیں جو حنفی اصطلاح کے مطابق فرض سے کم تردرجہ ہے فرض نہیں ہیں مالکیہ کے نزدیک سنت ہیں اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پہلا تشہد سنت ہے اور دوسرا فرض ہے دونوں تشہدوں میں دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھیں گے امام مالک کے نزدیک دونوں جگہ تورک ہے یعنی دایاں پاؤں کھڑا کر کے سرین پر بیٹھیں گے اور بائیں پاؤں کو اس کے نیچے سے نکال لیں گے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سلام والے تشہد میں تورک ہے اور جس میں سلام نہ ہو اس میں افتراش (بائیں پاؤں پر بیٹھنا) اور محدثین کا موقف بھی یہی ہے اور حنابلہ کے نزدیک جہاں دو تشہد ہیں وہاں پہلے میں افتراش اور دوسرے میں تورک اور جہاں تشہد ایک ہی ہے جیسے صبح کی نماز جمعہ اور عیدین وہاں افتراش ہے خلاصہ یہ ہے کہ سلام والے جلسہ کے سوا تمام جلسات میں افتراش ہے۔ (4)آئمہ ثلاثہ مالک، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کے نزدیک سلام فرض ہے اور احناف کے نزدیک واجب ہے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سلام کی جگہ کوئی ایسا کام کرنا جو نماز کے منافی ہو کفایت کر جائے گا لیکن علامہ کرخی اور ان کے ہمنوا حضرات کے نزدیک سلام ہی پھیرا جائے گا وہ خروج بصنعہ نماز کے منافی حرکت کی فرضیت کو تسلیم نہیں کرتے صاحب ہدایہ اور ان کے ہمنوا خروج بصنعہ ہی کو فرض قرار دیتے ہیں ترک واجب سے بعض احناف کے نزدیک گناہ لازم آتا ہے اور بعض کے نزدیک نماز کا دہرانا (اعادہ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported: The Messenger of Allah (ﷺ) used to begin prayer with takbir (saying Allih-o-Akbar) and the recitation: "Praise be to Allah, the Lord of the Universe." When he bowed he neither kept his head up nor bent it down, but kept it between these extremes; when he raised his head after bowing he did not prostrate himself till he had stood erect; when he raised his head after prostration he did not prostrate himself again till he sat up. At the end of every two rak'ahs he recited the tahiyya; and he used to place his left foot flat (on the ground) and raise up the right; he prohibited the devil's way of sitting on the heels, and he forbade people to spread out their arms like a wild beast. And he used to finish the prayer with the taslim.