باب: رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا افضل ہے، تطبیق (ہتھیلیوں کو جوڑ کر، انگلیوں کو پیوستہ کر کے، انہیں گھٹنوں کے درمیان رکھنا) منسوخ ہے
)
Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: The recommendation to place the hands on the knees when bowing, and the abrogation of tatbiq)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
534.
ابو معاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے اسود اور علقمہ سے روایت کی، ان دونوں نے کہا: ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ پوچھنے لگے: جو (حکمران اور ان کے ساتھ تاخیر سے نماز پڑھنے والے ان کے پیروکار) تم سے پیچھے ہیں، انہوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کی: نہیں۔ انہوں نے کہا: اٹھو اور نماز پڑھو۔ انہوں نے ہمیں اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہ دیا ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو انہوں نے ہمارے ہاتھ پکڑ کر ایک کو اپنے دائیں اور دوسرے کو اپنے بائیں طرف کر دیا۔ جب انہوں نے رکوع کیا تو ہم نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے، انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر ہلکا سا مارا اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ کر اپنی دونوں رانوں کے درمیان رکھ لیا۔ انہوں نے جب نماز پڑھ لی تو کہا: یقیناً آیندہ تمہارے ایسے حکمران ہوں گے جو نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کر یں گے اور ان کے اوقات کو مرنے والوں کی آخری جھلملاہٹ کی طرح تنگ کر دیں گے۔ جب تم ان کو دیکھو کہ انہوں نے یہ (کام شروع) کر لیا ہے تو تم (ہر) نماز اس کے وقت پر پڑھ لینا اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنا لینا۔ اور جب تم تین آدمی ہو تو اکٹھے کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب تم تین سے زیادہ ہو تو تم میں سے ایک امام بن جائے اور جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اپنے بازو اپنی رانوں پر پھیلا دے اور جھکے اور اپنی ہتھیلیاں جوڑ لے، (ایسا لگتا ہے) جیسے میں (اب بھی) رسول اللہ ﷺ کی (ایک دوسری میں) پیوستہ انگلیوں کو دیکھ رہا ہوں۔ اور (انگلیاں پیوست کر کے) انہیں دکھائیں۔
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
ابو معاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے اسود اور علقمہ سے روایت کی، ان دونوں نے کہا: ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ پوچھنے لگے: جو (حکمران اور ان کے ساتھ تاخیر سے نماز پڑھنے والے ان کے پیروکار) تم سے پیچھے ہیں، انہوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کی: نہیں۔ انہوں نے کہا: اٹھو اور نماز پڑھو۔ انہوں نے ہمیں اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہ دیا ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو انہوں نے ہمارے ہاتھ پکڑ کر ایک کو اپنے دائیں اور دوسرے کو اپنے بائیں طرف کر دیا۔ جب انہوں نے رکوع کیا تو ہم نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے، انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر ہلکا سا مارا اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ کر اپنی دونوں رانوں کے درمیان رکھ لیا۔ انہوں نے جب نماز پڑھ لی تو کہا: یقیناً آیندہ تمہارے ایسے حکمران ہوں گے جو نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کر یں گے اور ان کے اوقات کو مرنے والوں کی آخری جھلملاہٹ کی طرح تنگ کر دیں گے۔ جب تم ان کو دیکھو کہ انہوں نے یہ (کام شروع) کر لیا ہے تو تم (ہر) نماز اس کے وقت پر پڑھ لینا اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنا لینا۔ اور جب تم تین آدمی ہو تو اکٹھے کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب تم تین سے زیادہ ہو تو تم میں سے ایک امام بن جائے اور جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اپنے بازو اپنی رانوں پر پھیلا دے اور جھکے اور اپنی ہتھیلیاں جوڑ لے، (ایسا لگتا ہے) جیسے میں (اب بھی) رسول اللہ ﷺ کی (ایک دوسری میں) پیوستہ انگلیوں کو دیکھ رہا ہوں۔ اور (انگلیاں پیوست کر کے) انہیں دکھائیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت اسود اور علقمہ رحمتہ اللّٰہ علیہ سے روایت ہے کہ ہم عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر، ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا، کیا ان لوگوں نے جن کو تم پیچھے چھوڑ آئے ہو (حکمران اور ان کے اتباع) نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا، نہیں ، انہوں نے کہا، اٹھو اور نماز پڑھو تو انہوں نے ہمیں اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہ دیا۔ اور ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو انہوں نے ہمارے ہاتھ پکڑ کر ایک کو دائیں اور دوسرے کو اپنے بائیں کردیا۔ جب انہوں نے رکوع کیا تو ہم نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے، انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر مارا اور اپنی ہتھیلیوں کو جوڑا پھر ان کو اپنی دونوں رانوں کے درمیان رکھ لیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہا، عنقریب تمہارے امیر ایسے ہوں گے جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے اور ان کے وقت کو بہت تنگ کر دیں گے، جب تم ان کو دیکھو کہ انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا ہے تو تم نماز اس کے وقت پر پڑھ لینا اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفلی بنا لینا اور جب تم تین آدمی ہو تو اکٹھے کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب تم تین سے زیادہ ہو تو تم میں ایک امام بن جائے اور جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اپنے بازؤں کو اپنی رانوں پر پھیلا دے اور جھکے اور اپنی ہتھیلیاں جوڑ لے گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے اختلاف کو دیکھ رہا ہوں اور ان کو دکھایا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) يَخْنُقُوْنَهَا: اس کے وقت کو تنگ کریں،نماز کو تاخیر سےادا کریں گے۔ (2) اِلىٰ شَرْقِ الْمَوْتٰي: اگر اس کوشَرْقُ الشَّمْسِ سے لیں تو معنی ہوگا، اس وقت نماز پڑھیں گے جب سورج ڈوبنے کے قریب ہوگا اور اگر اس کو شَرْقُ الْمَيِّتِ بِرِيْقَهِ سے لیں تو معنی ہوگا میت کا تھوک سے گلا گھٹ گیا، اس لیے وہ جلد ہی مرگئی۔ مقصد دونوں صورتوں میں یہ ہو گا کہ اس وقت نماز پڑھیں گے جب سورج کے غروب ہونے میں تھوڑا سا وقت رہتا ہوگا۔ (3) سُبْحَةً: نفل، یعنی جو نماز تم نے الگ اپنے وقت پڑھی ہے وہ فرض ہو گی اور امیروں اور حاکموں سے بچنے کے لیے جو آخر وقت میں ان کے ساتھ نماز پڑھو گے وہ نفل ہو گی۔(4)لِيَجْتَاْ: جھک جائے، ایک نسخہ میں لِيُحْنِ ہے، اس کا معنی بھی، انحنا اور جھکنا ہے، يَحْنُ ہو تو پھر بھی یہی معنی ہوگا۔ (5)لِيُطَبِّقَ بَيْنَ كَفَّيْهِ: دونوں ہتھیلیوں کو ملا لے اور دونوں گھٹنوں کے درمیان کر لے۔
فوائد ومسائل
(1) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جلیل القدر اور عام اوقات میں بطور خدمت گزار آپﷺ کے ساتھ رہنے والے صحابی ہیں لیکن اس کے باوجود رکوع کے وقت تطبیق کے قائل تھے ہمیشہ آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں یہ پتہ نہ چل سکا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے درمیان نہیں رکھتے بلکہ ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھتے ہیں اس لیے امت میں سے کسی صحابی تابعی یا امام نے ان کے موقف کو اختیار نہیں کیا تو اگر انہیں رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا پتہ نہ چل سکا ہو تو اس میں اچنبھے کی بات کیا ہے۔ (2) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر امام کے ساتھ دو آدمی ہوں تو ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف کھڑا کرنے کے قائل ہیں اس کو بھی کسی امام نے اختیار نہیں کیا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کو پیچھے کھڑا کرتے تھے برابر نہیں۔ (3) اگر امام راتب (نمازوں کے لیے مقرر امام) تاخیر سے جماعت کراتا ہو تو گھر میں باجماعت نماز پڑھ لینی چاہیے اور اذان کہنے کی صورت میں انتشار و افتراق کا خطرہ ہو تو اذان نہیں کہی جائے گی اقامت بہر حال کہنی ہو گی لیکن حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اقامت کے بھی قائل نہیں ہیں احناف نے ان کے اس موقف کو بھی قبول نہیں۔ (4) اگر مسجد میں نماز باجماعت نہ پڑھنے سے کسی قسم کا اندیشہ یا خطرہ لاحق ہو تو نماز دوبارہ بطور نفل پڑھ لی جائے گی۔ اور حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ یہ نماز عصر کی تھی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضرورت کے تحت عصر کے بعد نفل پڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں لیکن جن لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ ہماری فقہ کا مدار حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقوال پر ہے وہ اس کے بھی قائل نہیں ہیں عجیب بات ہے اگر کسی امام کے قول کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی گستاخی اور توہین قرارپاتی ہے لیکن ایک جلیل القدر صحابی کے قول کو چھوڑ دیا جائے تو یہ توہین اور گستاخی نہیں ہے۔ اگر حدیث کے خلاف جلیل القدر صحابی کا قول و فعل ترک کرنا روا ہے تو آئمہ کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرنا کیوں جائز نہیں ہے؟ (5)عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے ثابت ہوا نماز اول وقت میں پڑھنا چاہیے نیز جو نماز دوبارہ پڑھی جائے گی تو پہلی نماز بطور فرض ہو گی اور دوسری بار نفل اس لیے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نماز پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے وہ فرض ہوتی تھی اور جو دوبارہ پڑھاتے تھے وہ نفل تھی اس لیے نقل نماز کے پیچھے فرض پڑھنا درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mahmud bin Labid reported: When 'Uthman bin 'Affan intended to build the mosque (of the Prophet) the people did not approve of it. They liked that it should be kept in the same state. Thereupon he said: I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: He who built a mosque for Allah, Allah would build a house for him like it in Paradise.