باب: نماز کے دوران میں بات چیت کی حرمت اور پہلے جواز کا منسوخ ہونا
)
Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: The prohibition of speaking during the prayer, and the abrogation of its former permissibility)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
537.
ہم سے ابو جعفرمحمد بن صباح اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی۔ حدیث کے لفظوں میں بھی دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ دونوں نے کہا: ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث بیان کی، انھوں نے حجاج صوّاف سے انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت معاویہ بن ابی حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑ ھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا: یَرْحَمُكَ اللہُ ’’اللہ تجھ پر رحم کرے۔‘‘ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے (دل میں) کہا: میری ماں مجھے گم پائے، تم سب کو کیا ہو گیا؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھر وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے۔ جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں (تو مجھے عجیب لگا) لیکن میں خاموش رہا، جب رسو ل اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے، میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان! میں نے آپﷺ سے پہلے اور آپکے بعد آپﷺ سے بہتر کوئی معلم (سکھانےوالا) نہیں دیکھا! اللہ کی قسم! نہ تو آپﷺ نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی گفتگو روا نہیں ہے، یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔‘‘ یا جیسے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! ابھی تھوڑا عرصہ پہلے جاہلیت میں تھا، اور اللہ نے اسلام سے نواز دیا ہے، ہم میں سے کچھ لوگ ہیں جو کاہنوں (پیش گوئی کرنے والے) کے پاس جاتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم ان کے پاس نہ جانا۔‘‘ میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو بد شگونی لیتےہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایسی بات ہے جو وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں (ایک طرح کا وہم ہے) یہ (وہم) انھیں (ان کے) کسی کام سے نہ روکے۔‘‘(محمد) ابن صباح نے روایت کیا: ’’یہ تمہیں کسی صورت (اپنے کاموں سے) نہ روکے۔‘‘ میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچھتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’سابقہ انبیاء عليهم السلام میں سے ایک نبی علیہ السلام لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں ان کے موافق ہو جائیں وہ تو صحیح ہو سکتی ہیں‘‘ (لیکن اب اس کا جاننا مشکل ہے) (معاویہ بن حکم نے) کہا: میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا ں چراتی تھی، ایک دن میں اس طرف جا نکلا تو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا۔ میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں، مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے (مجھے صبر کرنا چاہیے تھا) لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑ جڑ دیا اس کے بعد رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپﷺ نے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط) حرکت قرار دیا۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں؟ آپﷺ نےفرمایا: ’’اسے میرے پاس لے آؤ۔‘‘ میں اسے لے کر آپﷺ کےپاس حاضر ہوا، آپﷺ نےاس سے پوچھا: ’’اللہ کہا ں ہے؟‘‘ اس نےکہا: آسمان میں۔ آپﷺ نےپوچھا: ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نےکہا: آپﷺ اللہ کے رسولﷺ ہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
ہم سے ابو جعفرمحمد بن صباح اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی۔ حدیث کے لفظوں میں بھی دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ دونوں نے کہا: ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث بیان کی، انھوں نے حجاج صوّاف سے انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت معاویہ بن ابی حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑ ھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا: یَرْحَمُكَ اللہُ’’اللہ تجھ پر رحم کرے۔‘‘ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے (دل میں) کہا: میری ماں مجھے گم پائے، تم سب کو کیا ہو گیا؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھر وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے۔ جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں (تو مجھے عجیب لگا) لیکن میں خاموش رہا، جب رسو ل اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے، میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان! میں نے آپﷺ سے پہلے اور آپکے بعد آپﷺ سے بہتر کوئی معلم (سکھانےوالا) نہیں دیکھا! اللہ کی قسم! نہ تو آپﷺ نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی گفتگو روا نہیں ہے، یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔‘‘ یا جیسے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! ابھی تھوڑا عرصہ پہلے جاہلیت میں تھا، اور اللہ نے اسلام سے نواز دیا ہے، ہم میں سے کچھ لوگ ہیں جو کاہنوں (پیش گوئی کرنے والے) کے پاس جاتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم ان کے پاس نہ جانا۔‘‘ میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو بد شگونی لیتےہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایسی بات ہے جو وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں (ایک طرح کا وہم ہے) یہ (وہم) انھیں (ان کے) کسی کام سے نہ روکے۔‘‘(محمد) ابن صباح نے روایت کیا: ’’یہ تمہیں کسی صورت (اپنے کاموں سے) نہ روکے۔‘‘ میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچھتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’سابقہ انبیاء عليهم السلام میں سے ایک نبی علیہ السلام لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں ان کے موافق ہو جائیں وہ تو صحیح ہو سکتی ہیں‘‘ (لیکن اب اس کا جاننا مشکل ہے) (معاویہ بن حکم نے) کہا: میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا ں چراتی تھی، ایک دن میں اس طرف جا نکلا تو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا۔ میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں، مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے (مجھے صبر کرنا چاہیے تھا) لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑ جڑ دیا اس کے بعد رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپﷺ نے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط) حرکت قرار دیا۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں؟ آپﷺ نےفرمایا: ’’اسے میرے پاس لے آؤ۔‘‘ میں اسے لے کر آپﷺ کےپاس حاضر ہوا، آپﷺ نےاس سے پوچھا: ’’اللہ کہا ں ہے؟‘‘ اس نےکہا: آسمان میں۔ آپﷺ نےپوچھا: ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نےکہا: آپﷺ اللہ کے رسولﷺ ہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت معاویہ بن حکم سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا، اسی اثنا مین لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا: (یَرْحَمُكَ اللُّٰہ) اللّٰہ تجھے رحمت سے نوازے۔ تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تو میں نے کہا: کاش میری ماں مجھے گم پاتی (میں مر چکا ہوتا) تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہے ہو تو وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے، جب میں نے ان کو جانا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں تو مجھے غصہ آیا لیکن میں خاموش ہو گیا، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان، میں نے آپﷺ سے پہلے اور آپﷺ کے بعد آپﷺ سے بہتر سکھانے والا نہیں دیکھا، اللّٰہ کی قسم! نہ تو آپﷺ نے مجھے ڈانٹا نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ نماز، اس میں کسی قسم کی انسانی گفتگو روا نہیں ہے، یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔ یا جیسا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول ﷺ! میں جاہلیت سے نیا نیا نکلا ہوں اور اب اللّٰہ تعالیٰ نے اسلام بھیج دیا ہے (مجھے اسلام لانے کی توفیق دی ہے) ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں (پیش گوئی کرنے والے پنڈت و نجومی) کے پاس جاتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ’’تو ان کے پاس نہ جا۔‘‘ میں نے عرض کیا، ہم میں سے کچھ لوگ بد شگونی لیتے ہیں ، آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایک چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں، یہ ان کو کسی کام سے نہ روکے۔‘‘ ابن صباح نے کہا، ’’تمہیں بالکل نہ روکے۔‘‘ میں نے عرض کیا، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ’’انبیاء علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں اس کے موافق ہوں گی تو ٹھیک ہے۔‘‘ اس (معاویہ رضی اللہ عنہ) نے بتایا، میری ایک لونڈی تھی، جو احد اور جوانیہ کے پاس میری بکریاں چراتی تھی، ایک دن میں اس طرف آ نکلا تو بھیڑیا اس کی بکریوں سے ایک بکری لے جا چکا تھا تو میں بھی اولاد آدم سے ایک آدمی ہوں، مجھے بھی اس طرح غصہ آتا ہے، جس طرح ان کو غصہ آتا ہے، (مجھے صبر کرنا چاہیے تھا) لیکن میں نے اس کو زور سے تھپڑ رسید کر دیا، اس پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے میری اس حرکت کو بہت ناگوار قرار دیا، میں نے عرض کیا، اے اللّٰہ کے رسول ﷺ! کیا میں اس کو آزاد نہ کردوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘ میں اسے لے کر آپﷺ کے پاس حاضر ہوا، آپﷺ نے اس سے پوچھا، ’’اللّٰہ کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا آسمان پر۔ آپﷺ نے پوچھا ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نے کہا، اللّٰہ کے رسولﷺ ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) عَطَسَ: اس نے چھینک ماری۔ (2) رَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ: تو لوگوں نے مجھ پر آنکھوں کے تیرے برسائے۔ یعنی غضبناک نگاہوں سے دیکھا۔ (3) ثَكل: گم پانا۔ اثكل امياه ہائے میری ماں مجھے گم پاتی، میں مر چکا ہوتا۔ اثكل امی تھا، مندوب ہونے کی وجہ سے آواز کو کھینچنے (لمبا کرنا) کے لیے آخر میں الف اور ہاء کا اضافہ کر دیا۔ (4) يُصَمِّتُونَنِي: مجھے چپ کرا رہے تھے۔ کھر، قہرنہر، تینوں قریب المعنی لفظ ہیں، سرزنش وتوبیخ کرنا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا، جَاهِلِيَّةٍ: اسلام کی آمد سے پہلے کا دور، حَدِيثُ عَهْدٍ: کسی دور سے نیا نیا نکلنا۔ (5) لَا يَصُدَّنَّهُمْ : ان کو نہ روکے، وہ اپنے کام اور ارادہ سے باز نہ آئیں۔ (6) يَخُطُّ: وہ زائچہ تیار کرتے تھے۔ (7) الْجَوَّانِيَّةِ: احد پہاڑکے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ (8) آسَفُ: میں غم وحزن اور غضب وغصہ میں مبتلا ہوتا ہوں۔ (9) صَكَكْتُهَا صَكَّةً: میں نے اسے زور سے تھپڑ رسید کیا۔ (10) عَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ: آپﷺ نے اسے میرے لیے بہت برا قرار دیا۔
فوائد ومسائل
(1) نماز کے اندر اگر کسی کو چھینک آ جائے تو اس کو دعا دینا جائز نہیں ہے لیکن جس کو چھینک آئے وہ الحمد اللہ کہہ سکتا ہے حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھینکنے والے کو دعانا واقفیت اور جہالت کی بنا پر دی تھی اس لیے آپ نے اس کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ اس بنا پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہورعلماء کا یہ نظریہ ہے کہ ایک نمازی بھول کر یا جہالت کی بنا پر ایک آدھ کلمہ کہہ بیٹھے تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی نماز باطل ہو جائے گی لیکن یہ بات بے دلیل ہے۔ (2) نماز میں ضرورت کی صورت میں معمولی اشارہ سے کام لینا جائز ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ساتھی کو چپ کرانے کے لیے اپنی رانوں پر ہاتھ مارے تو آپﷺ نے ان کو منع نہیں فرمایا۔ (3) کاہن ان لوگوں کو کہتے ہیں جو مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرتے ہیں ان کے پاس جانا جائز نہیں ہے۔ (4) بدشگونی اور نحوست پکڑنا بھی جائز نہیں ہے اگر کسی کے دل میں بدشگونی کا خیال پیدا ہو جائے تو اسے اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے اور اس کی بناپر اپنے ارادہ اور کام سے رکنا نہیں چاہیے ۔ (5) لکیریں کھینچنا جس کو علم جس کو علم رمل کا نام دیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ زائچہ تیار کیا جاتا ہے یہ درست نہیں ہے کیونکہ پیغمبر کو اس کا جو علم حاصل تھا اس علم کو ہم نہیں جانتے اس لیے اس کی موافقت ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ (6) انسان کو اپنے ماتحتوں سے نرم رویہ رکھنا چاہیے ان پر ظلم و زیادتی روا رکھنا جائز نہیں ہے اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو اس کی تلافی کرنی چاہیے۔ (7) فِي السَّمَاءِ: کا معنی عَلَي السَّماءِ ہے فی علی کے معنی میں ہے جیسا کہ: ﴿سِيرُوا فِي الأرْضِ﴾ اور ﴿وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ﴾ میں ہے اور اس سے ثابت ہوا اللہ تعالیٰ اوپرہے۔ (8) انسان کے حسن سلوک کا زیادہ حقدار مسلمان مرد اور عورت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mu'awiyah bin al-Hakam said: While I was praying with the Messenger of Allah (ﷺ) , a man in the company sneezed. I said: Allah have mercy on you! The people stared at me with disapproving looks, so I said: Woe be upon me, why is it that you stare at me? They began to strike their hands on their thighs, and when I saw them urging me to observe silence (I became angry) but I said nothing. When the Messenger of Allah (ﷺ) had said the prayer (and I declare that neither before him nor after him have I seen a leader who gave better instruction than he for whom I would give my father and mother as ransom). I swear that he did not scold, beat or revile me but said: Talking to persons is not fitting during the prayer, for it consists of glorifying Allah, declaring his Greatness. and recitation of the Qur'an or words to that effect. I said: Messenger of Allah. I was till recently a pagan, but Allah has brought Islam to us; among us there are men who have recourse to Kahins. He said, Do not have recourse to them. I said. There are men who take omens. That is something which they find in their breasts, but let it not turn their way (from freedom of action). I said: Among us there are men who draw lines. He said: There was a prophet who drew lines, so if they do it as they did, that is allowable. I had a maid-servant who tended goats by the side of Uhud and Jawwaniya. One day I happened to pass that way and found that a wolf had carried a goat from her flock. I am after all a man from the posterity of Adam. I felt sorry as they (human beings) feel sorry. So I slapped her. I came to the Messenger of Allah (ﷺ) and felt (this act of mine) as something grievous I said: Messenger of Allah, should I not grant her freedom? He (the Holy Prophet) said: Bring her to me. So I brought her to him. He said to her: Where is Allah? She said: He is in the heaven. He said: Who am I? She said: Thou art the Messenger of Allah. He said: Grant her freedom, she is a believing woman.