باب: جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو تو تمام نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: It is recommended to say qunut in all prayers if a calamity befalls the Muslims – and refuge is sought from Allah (regarding that). It is recommended to say qunut in Subh at all times. And the clarification that it is to be said after raising the head from bowing in the final rak`ah, and it is recommended to say it out loud)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
675.
یونس بن یزید نے ابن شہاب سے روایت کرتے ہوئے خبر دی، کہا: مجھے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز فجر کی قراءت سے فارغ ہوتے اور (رکوع میں جانے کے لیے) تکبیر کہتے تو سر اٹھانے کے بعد سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ (اللہ نے سن لیا جس نے اس کی حمد کی، اے ہمارے رب! اور حمد تیرے ہی لیے ہے) کہتے، پھر حالت قیام ہی میں آپﷺ فرماتے: ’’اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مومنوں میں سے ان لوگوں کو جنھیں (کافروں نے) کمزور پایا، نجات عطا فرما۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنے روندنے کو سخت کر، ان پر اپنے اس مؤاخذے کو یوسف علیہ السلام کے زمانے کے قحط کی طرح کر دے۔ اے اللہ! الحیان، رعل، ذکوان اور عصیہ پر، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، لعنت نازل کر۔‘‘ پھر ہم تک یہ بات پہنچی کہ اس کے بعد جب آپﷺ پر یہ آیت اتری: ’’آپ کا اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں، (اللہ تعالیٰ) چاہے ان کو توبہ کا موقع عطا کرے، چاہے ان کو عذاب دے کہ و ہ یقینا ظلم کرنے والے ہیں‘‘ تو آپﷺ نے یہ دعا چھوڑ دی۔
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
یونس بن یزید نے ابن شہاب سے روایت کرتے ہوئے خبر دی، کہا: مجھے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز فجر کی قراءت سے فارغ ہوتے اور (رکوع میں جانے کے لیے) تکبیر کہتے تو سر اٹھانے کے بعد سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ (اللہ نے سن لیا جس نے اس کی حمد کی، اے ہمارے رب! اور حمد تیرے ہی لیے ہے) کہتے، پھر حالت قیام ہی میں آپﷺ فرماتے: ’’اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مومنوں میں سے ان لوگوں کو جنھیں (کافروں نے) کمزور پایا، نجات عطا فرما۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنے روندنے کو سخت کر، ان پر اپنے اس مؤاخذے کو یوسف علیہ السلام کے زمانے کے قحط کی طرح کر دے۔ اے اللہ! الحیان، رعل، ذکوان اور عصیہ پر، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، لعنت نازل کر۔‘‘ پھر ہم تک یہ بات پہنچی کہ اس کے بعد جب آپﷺ پر یہ آیت اتری: ’’آپ کا اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں، (اللہ تعالیٰ) چاہے ان کو توبہ کا موقع عطا کرے، چاہے ان کو عذاب دے کہ و ہ یقینا ظلم کرنے والے ہیں‘‘ تو آپﷺ نے یہ دعا چھوڑ دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت صبح کی نماز کی قرأت سے فارغ ہوکر اللّٰہ اکبر کہتے اور (رکوع سے) سر اٹھاتے تو فرماتے : سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ پھر کھڑے کھڑے دعا کرتے : اے اللّٰہ ! ولید بن ولید ، سلمہ بن ہشام ، عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور سمجھے جانے والے مومنوں کو نجات دے ۔ اے اللّٰہ ! مضریوں کو سخت طریقہ سے روند ڈال اور یہ پکڑ یوسف عَلیہِ السَّلام کے دور کی خشک سالی کی صورت میں ہو ۔ اے اللّٰہ ! الحیان ، رعل ، ذکوان اور عصیہ جس نے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی پر لعنت فرما۔ پھر ہم کو خبر پہنچی کہ جب یہ آیت اتری آپ ﷺ کو اس معاملہ میں کوئی اختیار نہیں ، اللّٰہ چاہے تو ان کی توبہ قبو کرلے ، چاہے تو ان کو عذاب دے ، کیونکہ وہ ظالم ہیں ۔ (آل عمران : ۱۲۸) تو آپ ﷺ نے یہ دعا چھوڑ دی ۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
جب مسلمان کسی مصیبت کا شکار ہوں مثلاً دشمن کا خوف ہو خشک سالی ہو کوئی وباء پھیل جائے تو تمام نمازوں میں قنوت نازلہ کرنا بہتر ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین کے نزدیک قنوت نازلہ نمازوں میں منسوخ ہے علامہ ابن ہمام نے قنوت نازلہ کو شریعت مستمرہ قراردیا ہے کیونکہ یہ خلفائے راشدین سے ثابت ہے اور بئرمعونہ میں شہید ہونے والے ستر قاریوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک دعا فرمائی اور پھر چھوڑ دی کیونکہ مقصد پورا ہو گیا تھا اس لیے قنوت نازلہ کا تعلق ضرورت سے ہے اگر مسلمان خوف زدہ ہوں مصیبت سے دوچار ہوں تو دعا کی جائے گی ورنہ نہیں۔نوٹ:۔(لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ)سےثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختار کل یا مختار مطلق نہیں ہیں علامہ سعیدی نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن جواب کی بجائے غیر شعوری طور پر اس بات کو تسلیم کر لیا ہے علامہ آلوسی حنفی کی عبارت نقل کر کے ترجمہ لکھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو توبہ کے لیے مجبور کرنے پر قادر نہیں نہ توبہ سے روکنے پر عذاب دینے پر قادر ہیں نہ معاف کرنے پر یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔علامہ اسماعیل حقی کی عبارت نقل کر کے ترجمہ لکھتے ہیں۔آیت کا معنی یہ ہے کہ کفار کے معاملات کا اللہ تعالیٰ علی الاطلاق مالک ہے خواہ انہیں ہلاک کردے یا سزادے اسلام لانے پر ان کی توبہ قبول کرے یا اسلام نہ لانے پر ان کو عذاب اخروی دے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کے مالک نہیں ہیں(شرح صحیح مسلم2/329)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Salama bin Abdul Rahman bin ' Auf (RA) heard Abu Hurairah (RA) say: (When) Allah's Messenger (ﷺ) (wished to invoke curse or blessing on someone, he would do so at the end) of the recitation in the dawn prayer, when he had pronounced Allah-o-Akbar (for bending) and then lifted his head (saying): "Allah listened to him who praised Him; our Lord! to Thee is all praise" ; he would then stand up and say: "Rescue al-Walid bin Walid, Salama bin Hisham, and 'Ayyash bin Abd Rabi'a, and the helpless among the Muslims. O Allah! trample severely Mudar and cause them a famine (which broke out at the time) of Joseph. O Allah! curse Lihyan, Ri'l, Dhakwan, 'Usayya, for they disobeyed Allah and His Messenger." (The narrator then adds): The news reached us that he abandoned (this) when this verse was revealed: "Thou but no concern in the matter whether He turns to them (mercifully) or chastises them; surely they are wrongdoers" (III 128)