Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: The travelers’ prayer and shortening it)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
689.
عیسیٰ بن حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب نے اپنے والد (حفص) سے روایت کیا، انھوں نے کہا: میں نے مکہ کے راستے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ سفر کیا، انھوں نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعتیں پڑھائیں، پھر وہ اور ہم آگے بڑھے اور اپنی قیام گاہ پر آئے اور بیٹھ گئے، ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ پھر اچانک ان کی توجہ اس طرف ہوئی جہاں انھوں نے نماز پڑھی تھی، انھوں نے (وہاں) لوگوں کو قیام کی حالت میں دیکھا انھوں نے پوچھا، یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز (بھی) پوری کرتا (قصر نہ کرتا) بھتیجے! میں سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا آپﷺ نے دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اپنے پاس بلا لیا اور میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمرا ہ رہا انھوں نے بھی دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بلا لیا، اور میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ رہا، انھوں نے بھی دو رکعت نماز سے زائد نہ پڑھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بلا لیا۔ پھر میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زائد رکعتیں نہیں پڑھیں، یہا ں تک کہ اللہ نے انھیں بلا لیا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ (کے عمل) میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
عیسیٰ بن حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب نے اپنے والد (حفص) سے روایت کیا، انھوں نے کہا: میں نے مکہ کے راستے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ سفر کیا، انھوں نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعتیں پڑھائیں، پھر وہ اور ہم آگے بڑھے اور اپنی قیام گاہ پر آئے اور بیٹھ گئے، ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ پھر اچانک ان کی توجہ اس طرف ہوئی جہاں انھوں نے نماز پڑھی تھی، انھوں نے (وہاں) لوگوں کو قیام کی حالت میں دیکھا انھوں نے پوچھا، یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز (بھی) پوری کرتا (قصر نہ کرتا) بھتیجے! میں سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا آپﷺ نے دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اپنے پاس بلا لیا اور میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمرا ہ رہا انھوں نے بھی دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بلا لیا، اور میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ رہا، انھوں نے بھی دو رکعت نماز سے زائد نہ پڑھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بلا لیا۔ پھر میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زائد رکعتیں نہیں پڑھیں، یہا ں تک کہ اللہ نے انھیں بلا لیا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ (کے عمل) میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حفص بن عاصم بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکہ کے راستہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ سفر کیا۔ انہوں نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، پھر وہ اور ہم اپنی قیام گاہ کی طرف بڑھے اور ہم ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اچانک انہوں نے اس جگہ کی طرف نظر دوڑائی جہاں انہوں نے نماز پڑھائی تھی تو لوگوں کو دیکھا کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز پوری پڑھتا (قصر نہ کرتا) اے میرے بھتیجے! میں سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا تو آپ ﷺ نے دو رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھی ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی روح قبض کر لی اور میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھی ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قبضہ میں لے لیا اور میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ رہا تو تو انہوں نے دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دی اور میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہ پڑھیں یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وفات پا گئے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ بہترین نمونہ ہیں‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نماز کے ساتھ سفر میں سنن مؤکدہ نہیں پڑھتے تھے لیکن صبح کی سنتیں پڑھتے تھے۔ اسی طرح وتر بھی پڑھتےتھے۔ اور عام نوافل بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے پڑھتے تھے۔ اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سنن مؤکدہ کا حکم نوافل والا ہو گا۔ ان کو نفل کی حیثیت سے پڑھ لیا جائے گا۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں نفل پڑھا کرتے تھے۔ (زاد المعاد، طبع احیاء التراث الاسلامی: ج، ص: 456) 2۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ منیٰ کے سوا تمام مقامات پر سفر میں نماز قصر پڑھتے تھے۔ اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سفر میں آخر عمر تک دو رکعت سے زائد فرض نہیں پڑھے۔ 3۔ احناف کے نزدیک مسافر اثنائے سفر میں سنت مؤکدہ نہ پڑھے اور حالت قیام میں پڑھ لے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hafs bin 'Asim said: I accompanied Ibn 'Umar on the road to Makkah and he led us in two rak'ahs at the noon prayer, then he went forward and we too went along with him to a place where he alighted, and he sat and we sat along with him, and he cast a glance to the side where he said prayer and he saw people standing and asked: What are they doing? I said: They are engaged in glorifying Allah, offering Sunnah prayer. He said: If I had done so I would have perfected my prayer; O my nephew! I accompanied the Messenger of Allah (ﷺ) on a journey, and he made no addition to two rak'ahs, till Allah called him. I accompanied Abu Bakr (RA) and he made no addition to two rak'ahs till Allah caused him to die. I accompanied 'Umar and he made no addition to two rak'ahs till Allah caused him to die. I accompanied 'Uthman and he made no addition to two rak'ahs, till Allah caused him to die, and Allah has said: "There is a model pattern for you in the Messenger of Allah" (al-Qur'an, xxxiii. 21).