Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: Encouragement to pray qiyam during Ramadan, which is Tarawih)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
761.
امام مالک رحمة الله عليه نے ابن شہاب سے روایت کیا، انھوں نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی تو کچھ اور لوگوں نے (بھی) آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپﷺ نے اس سے اگلی ر ات نماز پڑھی تو لوگوں (کی تعداد) میں اضافہ ہو گیا، پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نکل کر ان کے پاس تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جو تم نے کیا میں نے دیکھا، مجھے تمہارے پاس آنے سے اس کے سوا کسی چیز نے نہیں روکا کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ (نماز) تم پر فرض نہ ہو جائے۔‘‘ (عروہ یا ان کے بعد کے کسی راوی نے) کہا: اور یہ رمضان میں ہوا۔
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
امام مالک رحمة الله عليه نے ابن شہاب سے روایت کیا، انھوں نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی تو کچھ اور لوگوں نے (بھی) آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپﷺ نے اس سے اگلی ر ات نماز پڑھی تو لوگوں (کی تعداد) میں اضافہ ہو گیا، پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نکل کر ان کے پاس تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جو تم نے کیا میں نے دیکھا، مجھے تمہارے پاس آنے سے اس کے سوا کسی چیز نے نہیں روکا کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ (نماز) تم پر فرض نہ ہو جائے۔‘‘ (عروہ یا ان کے بعد کے کسی راوی نے) کہا: اور یہ رمضان میں ہوا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی تو کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپﷺ نے دوسری ر ات نماز پڑھی تو لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا، پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر ان کے پاس تشریف نہ یں لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف اس چیز نے روکا کہ مجھے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے۔‘‘اور یہ رمضان کا واقعہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرے میں صرف تین دن مسجد میں تراویح کی جماعت کرائی ہے اور اس میں آٹھ رکعات تراویح اور تین وتر پڑھے ہیں۔ چونکہ ہر دن لوگوں کے شوق اوررغبت میں اضافہ ہوتا رہا اور ان کی تعداد بڑھتی رہی اس لیے آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا شوق ورغبت دیکھ کر یہ خطرہ محسوس فرمایا کہ کہیں اس شوق ورغبت کی بنا پر اللہ تعالیٰ تراویح کو لازم نہ ٹھہرا دے، اس لیے آپﷺ نے جماعت موقوف فرما دی اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ پانچ فرائض پر اضافہ تو نہیں ہو سکتا تھا۔ کیونکہ پانچ نمازیں توروزانہ پڑھی جاتی ہیں اورتراویح کا تعلق صرف ماہ رمضان سے ہے۔ اس لیے اس کی فرضیت سے پانچ نمازوں میں اضافہ نہ ہوتا۔ رمضان تو صرف ایک ماہ ہی ہے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے، کہ تراویح نمازِ نفل ہی رہتی لیکن جس نے پڑھنی ہوتی اس کو جماعت کی پابندی لازماً کرنی پڑتی ۔ اب آپﷺ کے بعد چونکہ وحی کا آنا بند ہو گیا ہے اور نیا حکم جاری نہیں ہو سکتا اس لیے جماعت کی صورت میں تراویح پڑھنے کی فرضیت کا خطرہ نہیں رہا، اس لیے اب امت کے اکثرعلماء امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اکثر اصحاب (ساتھی) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بعض مالکیہ کے نزدیک تراویح جماعت کےساتھ پڑھنا افضل ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور سے لے کر آج تک مسلمانوں کا اس پرعمل ہے۔ اور یہ مسلمانوں کا امتیاز اور شعار کی شکل اختیار کر گئی ہے لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اوربعض شوافع رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کا گھر میں انفرادی طور پر اہتمام کرنا افضل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported that the Messenger of Allah (ﷺ) prayed one night in the mosque and people also prayed along with him. He then prayed on the following night and there were many persons. Then on the third or fourth night (many people) gathered there, but the Messenger of Allah (ﷺ) did not come out to them (for leading the Tarawih prayer). When it was morning he said: I saw what you were doing, but I desisted to come to you (and lead the prayer) for I feared that this prayer might become obligatory for you. (He the narrator) said: It was the month of Ramadan.