باب: اسلام ، احسان کی وضاحت ، تقدیر الہٰی کے اثبات پر ایمان واجب ہے ، تقدیر پر ایمان نہ لانےوالے سے براءت کی دلیل اور اس کے بارے میں سخت موقف
)
Muslim:
The Book of Faith
(Chapter: Explaining Al-Iman (Faith), Al-Islam, and Al-Ihsan, and The Obligations of Al-Iman With Affirmation of The Qadar of Allah, Glorious And Most High is He. And Explaining The Evidence For Declaring One's Innocence Of One Who Does Not Believe In Al-Qadar, And Having A Harsh View Of His Case)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
8.
کہمس ؒ ابن بریدہ رحمہ اللہ سے،انہوں نے یحیی بن یعمر ؒ سےروایت کی، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر (سے انکار) کی بات کی، معبد جہنی تھا میں (یحیی) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری رحمہما اللہ حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے، ہم نے (آپس میں) کہا: کاش! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان (آج کل کے) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں ۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کے درمیان میں لے لیا، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو (کا معاملہ) میرے سپرد کرے گا، چنانچہ میں نے عرض کی: اے ابو عبدالرحمن! (یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں (اور ان کے حالات بیان کیے) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں، (ہر) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے (پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے، نہ اللہ کا اس کاعلم ہے)۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ اس (ذات) کی قسم جس (کے نام) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ (بھی) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے، پھر کہا: مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا: ایک دن ہم رسول ا للہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے، اور اپنے ہاتھ آپ ﷺ کی را نوں پر رکھ دیے، اور کہا: اے محمد(ﷺ)! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں، نماز کا اہتمام کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ (طے کرنے) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو ۔ ‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ (حضرت عمررضی اللہ عنہ نے) فرمایا: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے پوچھتا ہے اور (خود ہی) آپ کی تصدیق کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔ ‘‘ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ (پھر) اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ ‘‘ اس نے کہا: تومجھے قیات کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس سے اس (قیامت ) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ ‘‘ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامات (نشانیاں) بتا دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(علامات یہ ہیں کہ ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، محتاج، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ ‘‘ حضرت عمررضی اللہ عنہ نےکہا: پھر وہ سائل چلا گیا، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا: ’’اے عمر !تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟‘‘ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل علیہ السلام تھے، تمہارے پاس آئے تھے، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے۔ ‘‘
امام مسلم نےصحیح مسلم کاآغازکتاب الایمان سےکیاہے۔عہدنبویﷺمیں جب قرآن نازل ہوااوررسول اللہﷺ نےایمان،اسلام اوراحسان کی تعلیم دی تواس وقت ان اصطلاحات کےمفہوم کےبارےمیں کسی کےدل میں کوئی تشنگی موجودنہ تھی۔لیکن آپﷺ کی رحلت کےبعدکچھ لوگوں نےایمان اوراسلام کےاسی مفہوم پراکتفانہ کیاجوصحابہ نےبراہ راست رسول اللہﷺ سےسمجھااوردوسروں کوسمجھایاتھا، انہوں نےاپنی اغراض یااپنےاپنےفہم کےمطابق ان دونوں کےنئےنئےمفہوم نکالنےشروع کردیے۔
سب سےپہلاگروہ جس نےایمان اورکفرکامفہوم اپنی مرضی سےنکالا،خوارج تھے۔ یہ گنوارلوگ تھے۔ قرآن اوراسلام کےبنیادی اصولوں کی تعبیربھی اپنی مرضی سےکرتےتھے۔ قبل ازاسلام کےڈاکوؤں کی طرح لوگوں کوقتل کرتےاوران کامال لوٹتے۔ مسلمانوں کےخلاف ان تمام جرائم کےجوازکےلیے انہوں نےیہ عقیدہ نکالاکہ گناہ کبیرہ کامرتکب کافرمطلق ہے۔ ان کےنزدیک ایمان محض عمل کانام تھا۔ صحیح مسلم کی حدیث:473(191)میں ان کےاس عقیدےکاذکرہے۔
حضرت عمرکےدورمیں جب اسلامی فتوحات کادائرہ وسیع ہواتوعراق،فارس،شام اورمصروغیرہ کےعلاقےاسلامی قلمرومیں داخل ہوئےاوریہاں کےباشندےبڑی تعدادمیں مسلمان ہوئے۔ یہاں کےلوگوں کےدینی افکارپرعلوم عقلیہ کی چھاپ نمایاں تھی۔ اسلام میں داخل ہونےکےبعداپنےاپنےافکارکےحوالےسےان کےمتعددفرقےسامنےآئے۔ ان لوگوں نےایمان اوراسلام کےحوالےسےفلسفیانہ اورمنطقی سوالات علمائےاسلام کےسامنےپیش کرنے کرنے شروع کر دیے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا مقصد تو فہم اور حصول علم تھا جبکہ کچھ لوگ خوارج کی طرح فتنہ انگیزی کے لیے ان سوالوں کو زیر بحث لاتے تھے۔ ان بہت سے سوالات میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ تقدیر سے مراد کیا ہے اور کیا اس کو مانا بھی ایمان کا حصہ ہے یا نہیں ۔ علمائے اسلام کو بہر طور ان سوالوں کے جواب دینے تھے۔ ہر ایک نے اپنے ذخیرہ علم اور اپنے فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی۔
اس دور کے مباحث کے حوالے سے فقہائے محدثین کے سامنے ایمان کے بارے میں جو سوالات پیش ہوئے وہ اس طرح تھے:
٭ ایمان کیا ہے؟ محض علم ،محض دل کی تصدیق ،محض اقرار ،عمل با ان میں سے بعض کا یا ان سب کا مجموعہ؟
٭ اسی طرح یہ بھی سوال اٹھا کہ ایمان رکھنے والے سب برابر ہیں یا کسی کا ایمان زیادہ اور کسی کا حکم ہے؟
٭ کیا ایک عام امتی کا ایمان صدیق اکبر یا عمر فاروق یا علی بن ابی طالب کے ایمان کے برابر ہوسکتا ہے؟
٭ کیا ایک امتی کا ایمان انبیاء اور ملائکہ کے ایمان کے برابر ہو سکتا ہے؟ کیا ایمان اور چیز ہے اور عمل چیزے دیگر؟
٭ کیا ایمان ہمیشہ ایک جتنا رہتا ہے یا کم و بیش ہوسکتا ہے؟
٭ کن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے؟ ان میں تقدیر بھی شامل ہے یا نہیں؟
٭ یہ سوال بھی شدت سے زیر بحث رہا کہ کبائر کا مرتکب مسلمان ہے، یا دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہے، یا پھر کہیں درمیان میں ہے؟
معبد جہنی ،جہم بن صفوان اور اس دور کے فرقہ قدریہ سے تعلق رکھنے والے ابوحسن صالحی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی معرفت یا دل میں جان لینے کا نام ہے اورکفر الجهل بالرب تعالی ’’ الله تبارک وتعالی کو نہ جانے کا نام ہے۔‘‘ اس جواب سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ فرعون مومن تھا کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ نے فرمایا، اسے علم تھا کہ اللہ ہی آسمانوں وزمین کا رب ہے۔ ارشاد الہی ہے:
(قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ)
’’ تو نے جان لیا ہے کہ ان چیزوں کو نشانیاں بنا کر آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں
اتارا ۔ بني اسراءيل 17:102)
اہل کتاب کے بارے میں قرآن کہتا ہے :
(يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ)
’’وہ رسول اللہﷺ کوپہچانتےہیں جس طرح اپنی اولادکوپہچانتےہیں۔ ‘‘(البقرہ 146:2)
اس نقطہ نظرکےمطابق یہ سب بھی مومن ہوئے۔ ابلیس بھی جواللہ تبارک وتعالیٰ کےبارےمیں بےعلم نہیں، مومن قرارپایا۔ نعوذبالله من ذلك.
اس بنیادی سوال کے حوالے سے فرقہ کرامیہ کا جواب یہ تھا کہ ایمان محض زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے۔ اس صورت میں منافق بھی کامل ایمان رکھنے والے مومن قرار پاتے ہیں۔ کرامیہ ان کو مومن ہی سمجھتے تھے، البتہ یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے جس عذاب کی خبر دی ہے اسے وہ ضرور بھگتیں گے۔
ابومنصور ماتریدی اور امام ابو حنیفہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی تصدیق کا نام ہے۔ ان کے بالمقابل
علمائے احناف میں سے ایک بڑی تعداد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کو کہتے ہیں۔
زیادہ تر ائمہ کرام، مثلا: امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور باقی تمام ائمہ حدیث کے علاوہ ظاہریہ اورمتکلمین میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ايمان تصديق بالجنان،واقرارباللسان وعمل بالاركان’’ایمان دل کی تصدیق،زبان کےاقراراور(اس تصدیق واقرارکےمطابق باقی)اعضاءکےاعمال سےثابت ہوتاہے۔‘‘یادرہےکہ محدثین دل کی تصدیق کودل کاعمل اورزبان کےاقرارکوزبان کاعمل سمجھتےہیں۔ (شرح العقيده الطحاوية ،قوله:والايمان هوالاقرارباللسان....ص:332)
قدریہ،جہمیہ اورکرامیہ تواہل سنت والجماعت سےخارج تھے۔ ان کاردیقیناضروری تھااوراچھی طرح کیابھی گیا۔ لیکن امام ابوحنیفہ اوران کےمؤیدین کےلیے،جوغیرنہیں،خوداساطین اہل سنت والجماعت میں سےتھے،فرامین رسول اللہﷺ کےذریعےسےاصل حقائق کی وضاحت انتہائی ضروری تھی۔
ایمان کےبارےمیں مذکورہ بالابنیادی سوالات کےجواب میں امام ابوحنیفہسےیہ باتیں منقول ہیں:
(الف)(العمل غيرالايمان والايمان غيرالعمل))
’’عمل ایمان سےجداہےاورایمان عمل سےالگ ہے۔ ‘‘
(ب)المومنون مستوؤن فى الايمان والتوحيد،متفاضلون فى الاعمال)
’’مومنین ایمان اورتوحیدمیں برابرہیں اوراعمال میں کم وبیش۔ ‘‘
(ج)الايمان لايزيدولاينقص
’’ایمان نہ گھٹتاہےنہ بڑھتاہے۔ ‘‘
(د)ايماني كايمان جبرئيل
’’میراایمان جبریل کےایمان کےمانندہے۔‘‘
(و)ايمان اهل السماوات والارض وايمان الاولين والاخرين والانبياءواحد
’’آسمانوں اورزمین والوں کاایمان اوراگلوں پچھلوں اورانبیاءکاایمان ایک (برابر)ہے۔ ‘‘(شرح الفقه الأكبربحواله إيضاح الأدلة ،ص:301-308)
امام بخاری،امام مسلم اوردیگرائمہ حدیث کےسامنےچونکہ پوراذخیرہ حدیث تھا،اس لیے انہیں معلوم تھاکہ یہ باتیں نہ صرف کتاب وسنت سےٹکراتی ہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جن جن الفاظ کےساتھ قرآن نےیارسول اللہﷺ نےان امورکوبیان فرمایاہےبعینہ انہی الفاظ کواستعمال کرتےہوئےبالکل متضادباتیں کہہ دی گئی ہیں،اورایک بڑےحلقےمیں ان کوقبول بھی کیاجارہاہے۔اس کاصحیح مداوایہی تھاکہ جولوگ بھی قرآن اورحدیث رسول اللہﷺ سےمتضادباتیں کہہ رہےتھے،ان کےسامنےرسالت مآب ﷺ کےتمام متعلقہ فرامین من عن پیش کردیئےجائیں۔
کتاب الایمان میں امام مسلم سب سےپہلےحدیث جبریل لائےہیں۔ اس میں رسول اللہﷺ نےحضرت جبریل کےپیش کردہ سوالوں کوجواب دیتےہوئےایمان،اسلام اوراحسان کامفہوم واضح کیاہے۔امام مسلمنےاس کےساتھ ہی اس مفہوم کی دوسری احادیث بھی بیان کردی ہیں۔ ان احادیث 93۔103۔(8۔12)سےپتہ چلتاہےکہ ان تینوں (ایمان،اسلام،اوراحسان)میں ابتدائی مرتبہ اسلام کاہے،اس سےاونچامقام ایمان کاہےاورسب سےاونچااحسان کا۔ اوریہ کہ اللہ، اس کےرسول،ملائکہ ،قیامت ،جنت اوردوزخ کےساتھ ساتھ تقدیرالہیٰ پربھی ایمان لاناضروری ہے۔ اسی طرح ان احادیث سےیہ بات بھی واضح ہوجاتی ہےکہ گناہ کبیرہ کامرتکب ابدی جہنمی نہیں ہوتا۔
اس کےبعدامام مسلم ایسی احادیث لائےہیں جن میں یہ مذکورہ ہےکہ وہ ایمان جوانسان کوجنت میں لےجاتاہےشرک سےپاک عبادات ،زکاۃ کی ادائیگی ،صلہ رحمی اوراللہ کےحرام وحلال کےاحکامات کی پابندی پرمشتمل ہے۔ (دیکھیے،احادیث :104۔114(13۔16)
پھروہ وفدعبدالقیس سےمتعلقہ روایات اوران کےہم معنی احادیث لائےہیں ۔ رسول اللہﷺنےوفدکےلوگوں کوحکم دیاکہ وہ اکیلےاللہ پرایمان لائیں،پھرسمجھانےکےلیے خودہی سوال کیاکہ کیاتم جانتےہوکہ اکیلےاللہ پرایمان کیاہے۔ پھرخودہی وضاحت فرمائی کہ ایمان اللہ کی وحدانیت اورمحمدﷺ کی رسالت کی گواہی ،اقامت صلاۃ،زکاۃ کی ادائیگی روزےرکھنےاوراللہ کی حرام کردہ اشیاءسےدوررہنےکانام ہے۔ (دیکھیے،احادیث :115۔123(17۔19)
ان احادیث سے تین باتیں واضح ہو جاتی ہیں:
1۔ گواہی (شہادت) دل کی تصدیق کی ہوتی ہے۔
2۔ ایمان حق دل کی تصدیق کا نام نہیں نہ دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار تک معامل ختم ہو جاتا ہے بلکہ باقی اعضاء و جوارح کے اعمال کے ذریعے سے بھی اسی حقیقت کی تصدیق ضروری ہے جس کی زبان سے گواہی دی گئی۔
3۔ ایمان اور اسلام کے الفاظ جب دونوں ملا کر ایک ساتھ بولے جائیں تو دونوں سے الگ الگ مفہوم مراد لیا جاتاہے۔ جب ان میں سے صرف ایک بولا جائے تو اس کے معنی میں بعض اوقات دوسرا بھی شامل ہوتا ہے اور بعض اوقات دونوں ایک دوسرے کے قائم مقام کے طور پر بولے جاتے ہیں۔ اس سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایمان محض تصدیق و اقرار کا نام نہیں بلکہ اس میں دیگر اعضاء کے اعمال بھی شامل ہونے ضروری ہیں، ورنہ یہ اسلام کے قائم مقام کے طور پر نہ بولا جا سکتا۔
اس کے بعد امام مسلم مانعین زکاة کے حوالے سے وہ احادیث لائے ہیں جن میں حضرت عمر اور حضرت ابو بکر ؓ کے الگ الگ موقف کا ذکر ہے۔ حضرت عمر کا خیال تھا کہ جس نے لا إله إلا الله کہہ دیا وہ مومن ہے اس لیے بقول رسول اللہ ﷺجان اور مال کے تحفظ کا حق دار ہے، اس سے جنگ نہیں کی جاسکتی۔ لا إله إلا الله کہنے سے اقرار اور اغلبا تصدیق کا تو پتہ چل جاتا ہے لیکن حضرت ابو بکر صدیق کا موقف اس سے مختلف تھا۔ انھوں نے فرمان رسول اللہ ﷺکے اگلےحصہ طرف توجہ دلائی۔ آپ نےفرمایاتھا: ((الاّبحقه)) الایہ کہ اسی کاحق ہو‘‘یعنی لا إله إلا الله كاحق یہ ہےکہ باقی اعضاءاسکےمطابق عمل کرتےہوں۔ جب زکاۃ کاوقت آجائے تو لا الہ کا تقاضا ہے کہ زکاة ادا کی جائے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو اس کے لیے جان و مال کا تحفظ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے زور دے کر یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی زکاة کے مال کی ایک رسی دینے سے بھی انکار کرے گا تو اس کے خلاف جہاد ہوگا۔ اس بات سے حضرت عمر نے بھی اتفاق کیا اور تسلیم کیا کہ وہی ہے جو حضرت ابوبکر صدیق کہہ رہے ہیں۔ دیکھیے،احادیث :124۔131(20۔23)
ان کےبعدوہ احادیث لائی گئیں جن کےالفاظ میں اجمال کےساتھ اس بات پرزوردیاگیاکہ جس نے لا إله إلا الله کہاوہ یقیناجنت میں داخل ہوگا۔ (دیکھیے،احادیث:136۔151(26۔36) ان احادیث کےذریعےسےیہ بات واضح ہوتی ہےکہ اجمال کےموقع پرمحض لا إله إلا الله کہنےکی بات کی گئی لیکن اس میں لا إله إلا الله کےتقاضوں پرعمل کرناشامل ہے۔ پھریہ روایت پیش کی گئی کہ ایمان کاذائقہ محض وہی شخص چکھتاہےجواللہ کےرب ہونےاورمحمدﷺکےرسول ہونےکےساتھ ساتھ اسلام کےدین ہونےپربھی راضی ہو۔ ظاہرہےجواستطاعت کےباوجوداحکام اسلام پرعمل نہیں کرتاوہ دل سےاسلام کےدین ہونےپرراضی ہی نہیں ہے۔ یہ انتہائی لطیف نکات ہیں جوامام مسلم نےمحض احادیث مبارکہ کی ترتیب کےذریعےسےواضح فرمائےہیں۔
پھر امام مسلم نے بالترتیب ایمان کے شعبوں اور ان میں سے افضل اور ادنی شعبوں کے متعلق احادیث پیش کیں۔
ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایمان کی حلاوت سے وہی آشنا ہوتا ہے جو اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان سے محبت کرتا ہے۔ ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ اہل و عیال، اولا و، مال اور خود اپنی ذات سے بڑھ کر محبت نہ ہو تو ایمان موجود نہیں۔ ظاہر ہے محبت تصدیق اور اقرار کے علاوہ دل کا ایک اور عمل ہے۔ (دیکھیے ، أحاديث: 152- 169(44) اس کے بغیر بھی ایمان کی نفی ہو جاتی ہے۔ گویا تصدیق بالقلب کے علاوہ قلب ہی کے دوسرے اعمال ، مثل : محبت اور احترام بھی ضروری ہیں۔
امام مسلم احادیث 177- 180(50) میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی روایات لائے ہیں ۔ تفصیلی روایت میں رسول اللہﷺ کے الفاظ اس طرح ہیں: جس نے ان (منکرات کے خلاف ہاتھوں سے جہاد کیا وہ مومن ہے۔ جس نے زبان کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے دل کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے۔ اس سے نیچے ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ۔‘‘ ان الفاظ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح بعض لوگوں نے کہا ہے محض دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار ایمان نہیں، بلکہ دیگر اعضاء، زبان اور خود دل کے دیگر اعمال بھی ضروری ہیں۔ تصدیق کے علاوہ دل کے دوسرے اعمال میں منکرات سے نفرت اوریہ عزم کہ جب ہاتھ اور زبان سے ان منکرات کے خلاف جہاد کی استطاعت ملے گی تو یہ جہاد کروں گا ، شامل ہیں ۔ دل کے مزید اعمال، مثلا : الحب في الله والبغض في الله کے بارے میں بھی احادیث پیش نظررہنی چاہییں ۔ ان احادیث سے جہمیہ کے نقطہ نظر کی تردید بھی ہوتی ہے کہ دل کی تصدیق کے سوا دل کے دوسرے اعمال ایمان نہیں ۔ ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ سے جہاد کرنے والے کا ایمان زیادہ ہے کیونکہ اس میں باقی اعضاء بھی زیادہ سے زیادہ شریک ہوتے ہیں۔ زبان سے جہاد کرنے والے کا اس سے کم، اس میں زبان کے ساتھ دل شریک ہوتا ہے۔ اور محض دل میں برا برسمجھنے والے کا ایمان سب سے کم ہے، کیونکہ باقی اعضا شامل نہیں ہوتے ۔ اس کے اپنے سرے سے ایمان ہی موجود ہیں۔
ان کے بعد امام مسلم نے وہ احادیث ذکر کی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں کا ایمان کن کن اعمال کی بنا پرافضل ہے اور کن لوگوں کا ایمان کم مرتبہ ہے، نیز ایمان کو یمن کی طرف نسبت دی گئی ہے اور اس کا سبب ان کے دلوں کی رقت کو قرار دیا گیا۔ اور کفر کی نسبت ان اونٹ چرانے والوں کی طرف کی گئی جو شدت پسند اور تندخو تھے۔ (دیکھیے ، أحاديث : 181-51193-53) ان احادیث سے امر بالمعروف والی احادیث کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ دل کی تصدیق کے علاوہ دل ہی سے متعلق دیگر ایسے اعمال ہیں جو ایمان کا حصہ ہیں۔ اسی طرح عدم تصدیق کے ساتھ دل ہی کےبعض دیگر عمل ہیں جو کفر کو سنگین تر بنا دیتے ہیں ۔ ایسے اعمال میں سنگ دلی ، شدت پسندی وغیرہ شامل ہیں۔
قرآن مجید نے ایمان اور اس میں اضافے کو دل ہی کی کیفیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ فرمان الہی ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾
’’مومن وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت
کی جائیں تو یہ آیتیں ان کا ایمان زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔‘‘ الأنفال 8:2)
احادیث کی ترتیب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ منکرات سے شدید نفرت، دل کی نرمی، اللہ کے ذکر پر دلوں میں خشیت ، سب ایمان میں شامل ہیں، یہ محض دل کی تصدیق کا نام نہیں ۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آیات الہی کی سماعت سے ایمان، جو مذکورہ بالا تمام باتوں کا مجموعہ ہے، زیادہ ہو جاتا ہے۔ جو حضرات نفس ایمان میں اضافے کے قائل نہیں بلکہ نزول قرآن کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ آیتوں پر ایمان لانے کو ایمان کا اضافہ قرار دیتے ہیں، ان کو اس آیت کے معنی قرار دینا پڑیں گے کہ جب پہلی دفعہ کوئی آیت ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے۔ دوسری یا تیسری بارانہی آیات کو سن کر ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اور آیت مبارکہ میں جس طرح تلاوت آیات سے پہلے ذکر الہی کا بیان ہے اسے بھی وہ پہلی بار اللہ کے ذکر پرمحمول کریں گے۔قرآن کےالفاظ ﴿ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ﴾ اور﴿ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ﴾ ‘‘جب اللہ کاذکرکیاجاتاہے اورجب اس کی آیتیں ان کےسامنےتلاوت کی جائیں‘‘سےایسےمفہوم کی گنجائش بھی نہیں نکلتی۔
اس کے بعد احادیث : 2012- 209(57) کے ذریعے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے ایمان میں کی واقع ہوتی ہے، نیز گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے وقت ایمان انسان کے دل سے نکل جاتا ہے، بعد میں واپس آجاتا ہے۔ ان احادیث کو اگر ہر گناہ کے ساتھ دل پر ایک کالا نکتہ آ جانے اور گناہوں کی کثرت سے دل کے مکمل سیاہ ہو جانے والی احادیث کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ برے اعمال کے ارتکاب سے دل کے اندر موجودنور ایمان کم ہوتا ہوتا بالآخر رخصت ہو جاتا ہے، اسی طرح اچھے عمل کرنے سے نور ایمان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ اقوال کہ میرا ایمان جبریل کےایمان کی طرح ہےیااولین،آخرین ،اہل دنیا،اہل سماءاورانبیاءسب کاایمان برابرہے،مذکورہ احادیث سےبالکل متضادہیں۔
ان کےبعدکی احادیث میں بعض ایسےاعمال کاتذکرہ ہےجن کورسول اللہﷺ نےکفرقراردیاہے۔ ان کےبعدوہ احادیث ہیں جن میں رسول اللہﷺ نےایمان کوعمل قراردیاہے۔ آپﷺ سےپوچھاگیا(اي الاعمال افضل)افضل ترین عمل کون ساہے؟فرمایا:الايمان بالله عزوجل...الخ-"اللہ عزوجل پرایمان لانا...‘‘(دیکھیے،احادیث:248۔251(83۔85)یہ قول کہ الايمان غير،والعمل غيران فرامین رسول ﷺ سےبالکل متضادہے۔
پھر ان احادیث کو لایا گیا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی طرح کفر میں بھی کمی اور زیادتی ہوتی ہے، مثل : تارک صلاة یا باہم قتال کر نے والوں کا کفر قطعی اور حتمی کفر سے کم تر ہے۔ ان احادیث کے بعد کبائر کے درجات کے حوالے سے احادیث مبارکہ کو لایا گیا، پھر وہ احادیث ہیں جن میں کبر اور شرک کو ایمان سے متضاد قرار دیا گیا اور شرک نہ کرنے کو جنت میں داخلے کی شرط اور شرک کرنے کو جہنم میں داخلے کا حتمی سبب قرار دیا گیا۔ کبراور شرک دونوں دل اوراعضاء کے عمل ہی کی صورتیں ہیں محض دل کی عدم تصدیق کی نہیں۔
پھر وہ احادیث بیان ہوئیں جن میں ذکر ہے کہ ایمان میں درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا ہے، کم ترین ایمان یہ ہے کہ کوئی تخص اچانک موت کو سامنے دیکھ کر اسلام سے عداوت اور عناد کے فورا بعد غور و فکر کے بغیر، یکدم لا إله إلا الله کا اقرار کر لے۔ یہ سب سے نچلا درجہ ہے۔ جب ایساواقعہ پیش آیا تو موقع پر موجود صحابی کا ظن غالب یہ تھا کہ ایسے شخص کی زبان پر اقرار تھا لیکن اس کے پیچھے جان بچانے کا ارادہ تھا، تصدیق کا کوئی جز موجود نہ تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺنے زور دے کر فرمایا کہ اس نے جو لا إله إلا الله کہہ دیا تھا تو یہ دلیل ہے کہ ایمان کا یہ جز موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن جب لا إله إلا الله تمھارے سامنے کھڑا ہو جائے گا تو کیا کرو گے؟ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو یہ سمجھے کہ اس کے دل میں جان بچانے کے قصد کے علاوہ کچھ نہیں تھا تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟ دیکھیے ، أحاديث: 279۔274(95۔97) ان کے ساتھ اس حدیث کو ملا کر دیکھیں جس میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی بستی سے اذان کی آواز آئے تو اس پر حملہ نہ کرو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرض اقرار یاعمل سامنے آجائے تو اسے ایمان سمجھا جائے جب تک اس کی دلیل موجود نہ ہو جو کفر پر دلالت کرے۔
پھر وہ احادیث ہیں جن میں ہی فرمایا گیا ہے کہ جس نے کافر ہو جانے کی جھوٹی قسم کھائی وہ اسی طرح (کافر) ہے جس طرح اس نے کہا۔ ایسے شخص کی یہ قسم کہ وہ کافر ہے، تب جھوئی ہوگی جب اس کے دل میں کسی نہ کسی درجے کا ایمان موجود ہو، اور اس قسم کی بنا پر اس کے دل میں کفر کا غصہ بھی موجود ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کے دل میں اسلام اور کفر دونوں کی متضاد کیفیتیں بھی موجود ہوسکتی ہیں۔ چونکہ مذکورہ بالا کبائر کے مرتکب لوگوں کے ہاں کچھ اعمال صالحہ بھی موجود ہو سکتے ہیں جو کسی حد تک ان کے دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کی تصدیق کرتے ہیں،اس لیے ان کو اسلام سے قطعی طور پر خارج قرار نہیں دیا گیا لیکن ان کے دلوں میں ایمان کی کمی کی وجہ سے ایسی کیفیت بھی موجود ہے جس کے سبب سے وہ کفر یہ اعمال کا ارتکاب کرتے جارہے ہیں ۔ یہ انتہائی باریک نکات ہیں جو امام مسلم نے احادیث کے انتخاب اور ان کی ترتیب سے اجاگر کیے ہیں۔
اسی طرح ایساشخص جو خودکشی کر لے اس کی سزا ابدی جہنم ہے جوقطعی کفر یا شرکت کی سزا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے یہ بھی اعلان کر ایا کہ نفس مسلمہ یا مومن انسان کے علاوہ کوئی جنت میں نہ جائے گا لیکن یہ بھی ہوا کہ ایک شخص نے ہجرت کے بعد مشکلات بھری زندگی سے تنگ آ کر ہاتھوں کی رگیں کاٹ کر خودکشی کرلی، الله تعالی نے ہاتھوں کے علاوہ اس کے باقی وجود کو خوش دیا۔ ہاتھ ویسے رہے تو رسول اللہ اﷺ نے اس کے ہاتھوں کے لیے بھی بخشش کی دعا فرمادی۔
اس حدیث سے اور اس سے پہلے والی احادیث سے پتہ چلا کہ بہت سے ایسے گناہ ہیں جن کا ارتکاب اس وقت ہوتا ہے جب ایمان یا تو بہت کم ہو جاتا ہے یا بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ ختم ہو جانے کی صورت میں ان کی سزا جہنم بلکہ ابدی جہنم ہے لیکن اگر وہی گناہ کسی ایسے شخص سے ہو جائے جس کے دل سے ایمان قطعی طور پر رخصت نہیں ہوا تھا تو ایمان کی کم از کم مقدار بڑے گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ (دیکھیے ، احادیث : 300-308 (109-112)
آگے چل کر وسوسوں کی بات ہے۔ احادیث :340-342 (132-3) میں دل میں آنے والے ایسے وساوس کی کیفیت کو، جو زبان پر نہیں لائے جاسکتے صریح ایمان یامحض ایمان قرار دیا گیا ہے۔ جس کی بناپر انسان کو اللہ کا خوف لاحق ہوتاہے اور ان وساوس سے کراہت ہوتی ہے ایسے برے وسوسے دل میں موجود ہوتے ہیں جو زبان پر نہیں لائے جا سکتے۔لیکن ان کے ہوتے ہوئے اس وقت دل میں جو ایمان موجود ہے جس کی بنا پر اسے صریح، خالص اور ملاوٹ سے پاک ایمان قرار دیا گیا ہے۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے ساتھ دل میں ایسی باتیں آسکتی ہیں جنھیں ایک مومن کے لیے زبان پر لا نا ممکن نہیں۔ یہ وساوس ہیں، لیکن جب تک یہ شک بن کر دل میں جاگزیں نہ ہو جائیں ان پر مؤاخذہ نہیں۔ جاگزیں ہوجائیں تو مؤاخذہ ہے کیونکہ اب یہ دل کا عمل بن چکا ہے۔ اسی طرح نیکی کا ارادہ دل کا عمل ہے جس پر جزا ملتی ہے۔ برائی کا ارادہ بھی دل ہی کا عمل ہے لیکن اللہ نے اپنی خصوصی رحمت سے اس کو معاف فرما دیا ہے۔ اگر اس ارادے پر دوسرے اعضاء عمل کر کے اس کی تصدیق کرتے ہیں تو پھر ایک برائی کی جاتی ہے۔
وسوسوں کی وجہ سے اہل ایمان کے دلوں کے اندر بر پا جنگ میں، اہل ایمان کی ایمان پر ثابت قدمی ، ان کے ایمان
کے خالی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ بھی دل ہی کا عمل ہے۔
احادیث 343-352 (134) میں شیطان کے اٹھائے جانے والے ایسے سوال کا تذکرہ ہے جس کا مقصد شکوک وشبہات پیدا کرنا اور ایمان و یقین کی پوری عمارت کو منہدم کرنا ہے۔ سوالوں کے سلسلے میں جب سوال سامنے آتا ہے کہ اگر ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو پھر خود اللہ کوکس نے پیدا کیا ؟ یہ بد ترین وسوسہ ہے۔ اس کا علاج یہ بتایا گیا کہ اس مرحلے پر مومن کو چاہیے کہ فورأ رک جائے اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور آمنت بالله کہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے یہ تاکید کی گئی کہ وجود باری تعالی کے لیے عقل اور حِس کی واضح دلالت موجود ہے لیکن شیطان دل میں ڈالے گئے اس سوال کے ذریعے سے انسان کو ان اشیاء کے بارے میں محض عقل کو استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس مرحلے پر ضروری ہے کہ انسان اپنی فطرت کی طرف رجوع کرے، اس اولین میثاق کو دہرائے جو ہر روح سے لیا گیا اور اس میثاق کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط کرے۔
اس کے بعد امام مسلم نے بڑے لطیف پیرائے میں اپنی ترتیب کو آگے بڑھایا۔ حدیث : 357۔362(137۔141) تک عہد اور حلف کی اہمیت کی احادیث بیان فرمائیں اور متعلقہ مسائل کی وضاحت کی ۔ اس کے بعد 362-366 (142) تک بڑی ذمہ دار ہوں ، مثلا : حکمرانوں کے عہد اور حلف کے بارے میں احادیث ذکر کیں، پھر اس عہد یا میثاق اول کے موضوع پر احادیث لائے جسے قرآن نے ’’الأمانة‘‘ کہا ہے۔
حدیث: 367( 143 ) میں پہلے یہ الفاظ ہیں کہ سب سے پہلے ’’الأمانة‘‘ انسانی دلوں کے اندرونی حصے میں نازل ہوئی، پھر قرآن نازل ہوا اور اہل ایمان نے قرآن اور سنت سے علم حاصل کیا، ان الفاظ میں بہت سے نکات قابل غور ہیں ۔ الأمانة وہی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا:
﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا﴾
’’ہم نے دکھائی امانت آسانوں کو زمین کو اور پہاڑوں کو تو ان سب نے انکار کر دیا کہ اسے اٹھائیں اور اس سےڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا یہ بڑاہی ظالم اور نادان ہے۔‘‘الاحزاب33۔72)
محدثین نے امانت کے معنی ایمان کیے ہیں۔ ایمان کو ایک امانت ہی کے طور پر انسان کے سپرد کیا گیا تھا، اس کی حفاظت ضروری تھی ، قرآن مجید نے یہ بات یوں بیان کی:
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣﴾ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾
’’ اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور یہ( پوچھ کر) انھیں خود ان پر گواہ بنایا کیا میں تمہارا رب نہیں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم گواہ ہیں، (یہ اس لیے کیا کہ) کہیں قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہمیں تو اس بات (اکیلے اللہ کی ربوبیت )کی خبر ہی تھی یا ایسا کہو کہ شرک تو ہمارے آباء واجداد نے کیا، ہم تو بعد میں ان کی اولاد تھے (جو انھوں نے سکھایا سیکھ گئے ۔) تو ہمیں کیوں ہلاک کرتے ہو اس کام پر جسے (دوسرے) غلط کاروں نے کیا؟ اور اس طرح ہم کھولتے ہیں آیتوں کو شاید وہ لوگ (حق کی طرف) لوٹ آ ئیں‘‘ الأعراف 7:172۔174)
یہی عہد وہ فطری ایمان ہے جس پر انسان کی ولادت ہوتی ہے۔ قرآن اسے ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
’’ پس تو ایک طرف کا ہو کر اپنا چہرہ دین کے لیے سیدھا رکھو، اللہ کی اس فطرت کے مطابق جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش کو کسی طرح بدلنا (جائز )نہیں ۔ یہی سیدھا دین ہے، اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ الروم 30:30)
صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کل مولود ولد على الفطرة ‘‘(صحیح البخاري، حدیث: 1385، وصحیح مسلم، حدیث:6755 (2658) مسلم کی ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں
((وإني خلقت عبادي حنفاءکلهم و إنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم ))
’’ میں نے اپنے تمام بندے دین حنیف کے پیرو کار پیدا کیے (پھر ) ان کے پاس شیاطین آئے اور انھیں ان کےدین سے پھیر دیا۔ صحیح مسلم، حدیث:7207(2865)
اِنَّ اللهَ تَعَالیٰ يَقُولُ لأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ : لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ ، أَكُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ ؟ فَيَقُولُ : نَعَمْ . فَيَقُول فقدسالتك ماهوأَهْوَنَ مِنْ ذَلِكَ وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ : أَنْ لا تُشْرِكَ بِي شَيْئًا ، فَأَبَيْتَ إِلا الشرك
’’اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سےسب سےہلکےعذاب والےسےکہےگا:زمین میں جوکچھ بھی ہےاگروہ تیری ملکیت ہوتوکیاتواسےاس(عذاب)کےبدلےفدیےمیں دےدےگا؟وہ کہےگا:جی ہاں۔ وہ (اللہ)کہےگا:میں نےتو،جب توآدم کی پشت میں تھا،تجھ سےوہ مانگاتھاجواس سےبہت کم تھا، یہ کہ تو(کسی کو)میراشریک نہ ٹھہراناپرتونےشریک ٹھہرانےکےسواہرچیزسے انکارکیا۔‘‘صحيح البخارى ،حديث:3334وصحيح مسلم،حديث:2805،7083)
یہی وہ عہدہےجس پراللہ تعالیٰ انسان کوپیداکرتاہے۔ اگرماں باپ اوردیگرعوامل انسان کواس سےمنحرف نہ کردیں تودل سےاس کی تصدیق ہوتی ہے،پھرزبان گواہی دےکراورباقی اعضاءبھی اپنےعمل سےاس کی تصدیق کرتےہیں۔
اس کےبعدباب الإسراءبرسول الله إلى السماوات وفرض الصلوات میں امام مسلم حدیث: 412۔417(162۔164)تک وہ احادیث لائےہیں جن میں دوبارہ رسول اللہﷺ کاشق صدرہونےکاتذکرہ ہے۔
پہلاواقعہ ابتدائےطفولیت کاہےجب آپ بنوسعدمیں تھے۔ اس کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
((فاستخرج القلب،فاستخرج منه علقه،فقال:هذاحظ الشيطان منك،ثم غسله فى طست من ذهب بماءزمزم ،ثم لامه ،ثم اعاده فى مكانه))
’’جبریل نےآپ کےدل کوباہرنکالا،اس میں سےایک لوتھڑاالگ کیااورکہایہ (دل کےاندر)وہ حصہ تھاجس کےذریعےسےشیطان اثراندازہوسکتاتھا، پھراسے(دل کو)سونےکےطشت میں زمزم کےپانی سےدھویا، پھراسےجوڑااوراس کی جگہ پرواپس رکھ دیا۔ ‘‘
((ففرج صدري،ثم غسله من ماءزمزم ،ثم جاءبطست من ذهب ممتليءحكمة وايمانا،فافرغهافى صدري ،ثم اطبقه ثم اخذبيدي ،فعرج بى الى السماء))
’’جبریل نے میرا سینہ چاک کیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا تو اسے میرے سینے میں خالی کر دیا، پھر سینے کو بند کیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور معراج پر لے گئے ۔‘‘
پہلے شق صدر کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ میثاق اولین کو برائی کی کوئی قوت چھیڑ ہی نہ سکے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ واضح طور پر ہمیشہ اسی میثاق پر قائم رہے۔ اور دوسرے شق صدر کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے قلب مبارک میں حکمت و ایمان میں مزید اضافہ کیا جائے تا کہ آپ اپنے عظیم ترین سفر اور اس کے مشاہدات کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ حدیث حقیقت ایمان میں زیادتی کے بارے میں نص صریح ہے۔ آپ ﷺ کا قلب مطہر پہلے ہی ایمان سے معمور تھا۔ اس مرحلے میں اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ ان دونوں حدیثوں سے، کہنے والے کی اس بات کی مکمل تردید ہو جاتی ہے کہ إيماني إيماني الأنبیاء ”میرا ایمان انبیاء کے ایمان کی طرح ہے۔ ان فقروں کے حامی متکلمین نے ان فقروں کی تائید کے لیے جو کچھ کہا ہے اس حدیث کو سامنے رکھیں تو ان میں سے کسی بات میں کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔
البتہ محد ثین کی بھر پورمہم کے نتیجے میں، بعض اہل علم نے ان باتوں کی از سر نو تعمیر اور وضاحت کرنے کی کوششیں کیں۔ شیخ ملاعلی قاری نے امام ابوحنیفہ کے بعد ان کے ایسے شارحین کے وضاحتی بیان جمع کر کے کامیابی سے حضرت الامام کے اقوال کی ایسی تعبیر کر دی ہے جو کتاب وسنت پرمبنی ائمہ محدثین اور جمہور امت کے نقطہ نظر کے قریب تر ہے۔
ایمان کے حوالے سے امام مسلم نے احادیث کی جمع وترتیب کے ذریعے سے جوحقائق واضح کیے، یہ ان کا ایک اجمالی جائزہ ہے، اس جائزے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کے سامنے ایمان کے بنیادی حقائق کا ایک مختصر نقشہ موجود رہے اور امام مسلم نے اپنے حسن ترتیب سے جو نکات واضح کرنے کی کوشش کی ان کے سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔
کہمس ؒ ابن بریدہ رحمہ اللہ سے،انہوں نے یحیی بن یعمر ؒ سےروایت کی، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر (سے انکار) کی بات کی، معبد جہنی تھا میں (یحیی) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری رحمہما اللہ حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے، ہم نے (آپس میں) کہا: کاش! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان (آج کل کے) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں ۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کے درمیان میں لے لیا، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو (کا معاملہ) میرے سپرد کرے گا، چنانچہ میں نے عرض کی: اے ابو عبدالرحمن! (یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں (اور ان کے حالات بیان کیے) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں، (ہر) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے (پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے، نہ اللہ کا اس کاعلم ہے)۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ اس (ذات) کی قسم جس (کے نام) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ (بھی) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے، پھر کہا: مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا: ایک دن ہم رسول ا للہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے، اور اپنے ہاتھ آپ ﷺ کی را نوں پر رکھ دیے، اور کہا: اے محمد(ﷺ)! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں، نماز کا اہتمام کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ (طے کرنے) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو ۔ ‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ (حضرت عمررضی اللہ عنہ نے) فرمایا: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے پوچھتا ہے اور (خود ہی) آپ کی تصدیق کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔ ‘‘ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ (پھر) اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ ‘‘ اس نے کہا: تومجھے قیات کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس سے اس (قیامت ) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ ‘‘ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامات (نشانیاں) بتا دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(علامات یہ ہیں کہ ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، محتاج، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ ‘‘ حضرت عمررضی اللہ عنہ نےکہا: پھر وہ سائل چلا گیا، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا: ’’اے عمر !تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟‘‘ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل علیہ السلام تھے، تمہارے پاس آئے تھے، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھے ابو خیثمہ زہیر بن حرب ؒ نے وکیع کے واسطے سے کہمس سے سنایا، کہمس کہتے ہیں مجھے عبداللہ بن بریدہ ؒ نے یحییٰ بن یعمر ؒ سے نقل کیا، نیز امام مسلم ؒ کا قول ہے ہمیں عبیداللہ بن معاذ العنبری ؒ نے اپنے باپ کے واسطے سے کہمس ؒ سے بیان کیا اور یہ الفاظ عنبری ؒ کے ہیں (حدیث عنبری کی نقل کی گئی ہے) کہمسؒ، ابنِ بریدہ کے واسطے سے یحییٰ بن یعمرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلےمسئلہ تقدیر پر گفتگو کا آغاز معبد الجُہنی نے کیا، میں (یحییٰ) اور حمید بن عبدالرحمٰن الحمیری ؒ حج یا عمرہ کے ارادے سے نکلے ہم نے آپس میں کہا اے کاش! ہماری ملاقات نبی اکرم ﷺ کے ساتھیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہو جائے تو ہم اس سے (یہ لوگ جو کچھ تقدیر کے بارے میں کہہ رہے ہیں) اس کے بارے میں پوچھ لیں۔ تو اتفاقاً ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر خطاب ؓسے مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ہوگئی میں اور میرے ساتھی نے انھیں گھیر لیا ہم میں سے ایک ان کے دائیں اور دوسرا ان کے بائیں تھا۔ میں نے خیال کیا میرا ساتھی یقیناً گفتگو کا معاملہ میرے ہی سپرد کرے گا چنانچہ میں نے پوچھا: اے ابو عبدالرحمٰن! (یہ عبداللہ بن عمر ؓ کی کنیت ہے) واقعہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو قرآن کی قرات کرتے ہیں اور علم کے متلاشی ہیں (اس طرح)ان کے حالات بیان کیے ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیرکا کوئی مسئلہ نہیں۔ ہر کام نئے سرے سے ہو رہا ہے (اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم نہیں ہے) حضرت ابنِ عمر رضی الله عنه نے فرمایا: جب تیری ان لوگوں سے ملاقات ہوتو انھیں بتانا، میں ان سے بری ہوں (ان سے میرا کوئی تعلق نہیں) اور ان کامجھ سے کوئی تعلق نہیں، عبد اللہ بن عمر رضی الله عنها جس ذات کی قسم اٹھاتا ہےاس کی قسم ان میں سے کسی ایک کے پاس اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو، جسے وہ خرچ کر دے، اللہ تعالیٰ اس سے قبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے، پھر کہا: مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی الله عنه نے بتایا کہ ایک دن ہم نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے اسی اثناء میں اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہ دیتے تھےاور ہم میں سے کوئی ایک بھی اسے جانتا پہچانتا نہ تھا حتی کہ وہ آکر رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے اور اپنی ہتھیلیاں اپنی رانوں پر رکھ لیں (جیسے طالب علم استاد کے سامنے بیٹھتا ہے) اور پوچھا اے محمدؐ! مجھے اسلام کے بارے میں بتلائیے! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں (بندگی اور عبادت کے لائق کوئی نہیں) اور محمدؐ اس کے رسول ہیں۔ نماز کا اہتمام کرے، زکوٰۃ ادا کرتا رہے، رمضان کے روزے رکھے، بیت اللہ کا حج کرے اگر اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو۔‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر رضی الله عنه کہتے ہیں: ہمیں اس کی اس بات پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا ہے اور پھر (خود ہی) تصدیق کرتا ہے۔ اس نے سوال کیا: مجھے ایمان کی حقیقت سے آگاہ کیجیے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’تو اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن یعنی قیامت کو مان لے اور تقدیر کو خیر کی ہو یا شر کی ، تسلیم کر لے۔‘‘ اس نے کہا: آپؐ نے درست فرمایا۔ اس نے پوچھا: پس مجھے احسان کی حقیقت کی خبر دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو اللہ کی بندگی و طاعت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے حالانکہ تو اسےنہیں دیکھ رہا یقیناً وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے سوال کیا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’جس سے قیامت کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ اس نےکہا: تو مجھے اس کی کچھ علامات (نشانیاں) ہی بتا دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور تو دیکھے گا ننگے پاؤں ، ننگے بدن والے، محتاج، بکریوں کے چرواہے عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔‘‘ حضرت عمر رضی الله عنه کا بیان ہے: پھر وہ سائل چلا گیا تو میں کچھ عرصہ ٹھہرا رہا بعد میں مجھ سے آپ ﷺ نے پوچھا: ’’اے عمر! تجھے معلوم ہے سائل کون تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) ہی زیادہ جانتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل ؑ تھے تمھارے پاس تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) قَدَرٌ: دال کی زبر اور سکون کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، معنی ہے اندازہ، مقدار، قدرت و طاقت۔ (2) يَتَقَفَّرُونَ: وہ تلاش اور جستجو کرتے ہیں، اگر قاف کی بجائے فاء پہلے ہو یعنی يَتَفَرَّقُونَ تو معنی ہو گا باریکیاں نکالتے ہیں، گہرائی میں اترتے ہیں۔ (3) الْأَمْرَ أُنُفٌ: ہر کام نئے سرے سے ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم نہیں، اللہ تعالیٰ کو وقوع کے بعد پتہ چلتا ہے۔ (4) حُفَاةٌَ:حَافٍ کی جمع ہے۔ ننگے پاؤں والے، عُرَاةٍ کا مفرد عَارٍ ہے، ننگے بدن والے، عَالَةٌ کا مفرد عائل ہے۔ فقیر و محتاج، رِعَاءٌ راء کے کسرہ کے ساتھ رَاعٍ کی جمع ہے چرواہا۔ (5) يَتَطَاوَلُونَ: عمارات کے ارتفاع و بلندی اور کثرت پر ایک دوسرے سے بڑھیں گے اور ان کے حسن و زیبائش پر ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔ (6) مَلِيًّا: میم کے فتح اور یاء کی تشدید کے ساتھ، کافی عرصہ یا دیر تک ٹھہرنا۔ سنن کی روایت ہے کہ یہ عرصہ تین دن تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجلس سے جلد چلے گئے تھے، اس لیے ان کو آپ نے بعد میں بتایا اور حاضرین کو اسی مجلس میں بتا دیا تھا۔
فوائد ومسائل
جبریل عليه السلام کی آمد اور آپ سے گفتگو نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے بالکل آخری دور میں ہوئی، گویا جس دین کی تکمیل، آپ کی تیئس سالہ زندگی میں ہوئی ،آخری دور میں حضرت جبریل کے سوالات اور آپ ﷺ کے جوابات کی صورت میں اس کا خلاصہ اور نچوڑ صحابہ کرام رضي الله عنهم کے سامنے پیش کر دیا گیا، اور اسی حدیث کو حدیث جبریل کے نا م سے موسوم کرتے ہیں۔ اس حدیث میں چونکہ پورے دین کا نچوڑ، خلاصہ اور عطر آگیا ہے، جس طرح فاتحہ میں پورے قرآن کا نچوڑ اور مغز آگیا ہے، اس لیے اس حدیث کو ام السنۃ یا ام الحدیث کا نام دیا گیا ہے، جس طرح کہ فاتحہ کو ام القرآن یا ام الکتاب کہا جاتا ہے۔ دین کا حاصل اور روح تین باتیں ہیں: (الف) انسان اپنے آپ کو کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اس کا مطیع اور فرماں بردار بن جائے، اپنی پوری زندگی اس کی بندگی میں گزارے، اس کا نام اسلام ہے، اور اس کے پانچ ارکان، توحید ورسالت کا اقرار وشہادت، نماز، زکاۃ، روزہ او بیت اللہ کا حج یہ اسلام کا پیکرِ محسوس اور بندگی کا مظہر ہیں ۔ (ب) ان غیبی حقیقتوں کا ماننا اور ان پر یقین کرنا، جو اللہ تعالیٰ کا رسول بتلائے اور ان کے ماننے کی دعوت دے اس کا نام ایمان ہے، جس کے چھ ارکان ہیں، اللہ تعالیٰ، فرشتوں، آسمانی کتابوں ، رسولوں، قیامت اورتقدیر خیر وشر پر ایمان لانا۔ (ج) اسلام اور ایمان کا اس قدر پختہ یقین، جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا ایسا استحضار ہو کہ اس کے احکام وفرامین، اور اس کے اوامر ونواہی کی تعمیل اس طرح ہونے لگے گویا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہے۔ فرماں برداری اور بندگی کی اس کیفیت کا نام احسان ہے۔ اگرچہ انسان دنیا میں نہیں دیکھ سکتا مگر دیکھنے کا تصور کر رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے اور اصل میں اسی کے دیکھنے کا اعتبار ہے کیونکہ اجر وثواب اسی نے دینا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا: یہ ہے کہ اس کو ان تمام صفات کمال سے متصف مانا جائے جو قرآن وحدیث میں آئی ہے اور ان کو بلا تشبیہ وتمثیل اور بلا تکییف وتاویل تسلیم کیا جائے۔ اور اس کو تمام صفاتِ نقص سے منزہ اور پاک مانا جائے، اس کی ذات، صفاتِ افعال اور حقوق میں کسی کو شریک وسہیم قرار نہ دیا جائے، پوری کائنات کا خالق ومالک اور مدبر ومنتظم مانا جائے، نفع ونقصان کا مالک صرف اسی کو تسلیم کیا جائے۔ اس لیے تمام حوائج وضروریات کا پورا کرنے والا اور تمام مشکلات کا حل کرنے والا اسے ہی مانا جائے۔ ملائکہ پر ایمان لانا: یہ ہے کہ وہ ایک مستقل مخلوق ہے جس طرح انسان، جن اور حیوان ایک الگ الگ اور مستقل مخلوق ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک پاکیزہ اورمحترم مخلوق ہے، یعنی"عباد مکرمون" معزز ومکرم بندے ہیں، جن میں شر اور شرارت ،عصیان وسرکشی اور نافرمانی کا مادہ نہیں ہے۔ ﴿لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾(التحريم: 6)’’وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے، جو حکم ملتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔‘‘﴿لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ﴾(الأنبياء: 27)’’بات میں پہل نہیں کرتے ،صرف اس کے حکم کے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔‘‘ اس طرح قرآن وسنت میں ان کی جو صفات اور فرائض وذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ان کو دل کی گہرائی سے ماننا "ایمان بالملائکہ" ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانے کا مقصد یہ ہے کہ تسلیم کیاجائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رشد وہدایت اور رہنمائی کے لیے وقتا فوقتا جو ہدایت نامے بھیجے وہ برحق تھے اور اب آخری ہدایت نامہ قرآن مجید ہے جو پہلی تمام کتابوں کا مصداق اور مھیمن (نگہبان ومحافظ ) ہے ۔ یہ ہدایت نامہ، آسمانی ہدایت ناموں کا گویا آخری اور مکمل ترین ایڈیشن ہے، جو تمام آسمانی کتابوں کے اساسی وبنیادی اور ضروری مضامین پر مشتمل ہے۔ سب سے مستغنی اور بے نیاز کر دینے والا ہے۔ رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کی ضرورت کا کفیل ہے ۔ اب انسان کسی اور ہدایت نامے (آسمانی کتاب) اور شریعت ودین کے محتاج نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے قیامت تک، اس کے حضاظت کی ذمہ داری اٹھائی ہے، فرمایا: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾(الحجر: 9)’’بے شک ہم ہی نے ذکر اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘اللہ تعالی ٰ کے رسولوں پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس واقعی حقیقت کا صدق دل سے اقرر کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے وقتا فوقتا اپنے بندوں کی رشد وہدایت اور رہنمائی کے لیے، اپنے مخصوص، برگزیدہ اور منتخب بندوں کو اپنی رضا مندی کا مظہر ضابطہء حیات اوردستورِ زندگی دے کر مختلف علاقوں اور مختلف لوگوں کی طرف بھیجا۔ انہوں نے انتہائی دیانت وامانت اور فرض شناسی سے اللہ تعالیٰ کا پیغام انسانوں تک پہنچایا اور انہوں نے انسانوں کو راہ راست پر لانے اور کفر وضلالت سے بچانے کےلیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور انتہائی محنت ومشقت برداشت کرتے ہوئے اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآ ہوئے، وہ سب کے سب صادق اور امین تھے، ان میں سے کسی نے بھی اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور نہ کسی نے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا، ان میں سے چند ایک کے حالات واقعات قرآن وسنت میں بیان کیے گئے ہیں اور اکثر کے حالات پردہ خفا میں ہیں، فرمایا: ﴿مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ﴾(الْمُؤْمن: 78)’’ان میں سے بعض کا حال ہم نے آپ سے بیان کیا ہے اور بعض کا حال آپ سے بیان نہیں کیا ہے۔‘‘ رسالت ونبوت کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر ختم کر دیا گیا ہے۔ اب کسی نبی یا رسول کا آنا ممکن نہیں ہے اور جو بھی یہ دعویٰ کرتا ہے، یا کرے گا وہ جھوٹا اور مکار ہے اور اس کو ماننے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔ آپ ﷺ خاتم الانبیاء اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں: ﴿مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾(الأحزاب: 40)’’محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، البتہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔‘‘ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے نجات وفلاح آپ ہی کی پیروی پر موقوف ہے اور آپہ ی کی ہدایات وتعلیمات کی پابندی ایمان کی علامت اورنشانی ہے ۔ ایمان بالیوم الآخر کا معنی یہ ہے کہ : اس حقیقت کا یقین کیا جائے کہ یہ دنیا اپنے وقت مقررہ پر انجام کو پہنچ جائے گی یعنی موجودہ کائنات فنا کر دی جائے گی ، دنیا کے خاتمہ پر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے تما م انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا اور ان سے ان کی زندگی کا حساب وکتاب لے گا، انسان نے جو کچھ اس دنیا میں کیا ہے اس کی جزا یا سزا پائے گا جو بویا ہے اسے ہی کاٹے گا، انسان کی کامیابی وکامرانی یا ناکامی ونامرادی کا دارومدار انسان کے اپنے عقیدہ اور عمل پر ہے۔ ایمان بالقدر یہ ہے کہ : اس بات کا اقرار کیا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے خیر ہے یا شر نیک ہے یا بد، کفر وشرک ہے یا ایمان ویقین، شریعت ودین کی پابندی وپاسداری ہے یا نافرمانی وعصیان اور سر کشی، اس سب کا اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے اور سب کچھ اس کے ارادہ اور مشیت کے تحت ہو رہا ہے، لیکن وہ ایمان ویقین اور اطاعت وفرمانبرداری کو پسند فرماتا ہے اور کفر وعصیان کو ناپسند کرتا ہے: ﴿لَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ﴾(الزمر: 7)’’وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو ناپسند کرتا ہے اور اگر تم شکر کرو گے تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ دنیا میں کوئی چیز اس کی منشا کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ جو کچھ چاہتا ہے وہی وہتا ہے اورجو کچھ نہیں چاہتا وہ نہیں ہو سکتا، ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو لیکن اس دنیا میں اس کی منشا کے خلاف کچھ اور واقع ہو جائے وہ عاجز اور بے بس نہیں ہے بلکہ قدرت کاملہ کا مالک ہے۔ اس کا علم محیط ہے یعنی ازلی وابدی ہے۔ ہر چیز کو اس کے وقوع سے پہلے جانتا ہے اور اس دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے علم کے مطابق ہو رہا ہے ایسا نہیں ہے کہ اس کے علم میں کچھ ہواور واقع کچھ اور ہوجائے۔ قدریہ جو معبد جہنی کے پیروکار ہیں: وہ ان چیزوں کے منکر ہیں، ان کے بقول اللہ تعالیٰ کو پہلے سے کسی چیز کا علم نہیں ہے، بلکہ اس وقت علم ہوتا ہے جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے، اس فرقہ کو جو تقدیر کا منکر ہے قدریہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ لوگ تقدیر کے مسئلہ پر بہت بحث وتمحیص کرتے ہیں، اہل حق تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ اور ان کے تما م افعال، خیر ہوں یا شر، نیک ہوں یا بد کا خالق اللہ تعالیٰ کو تسلیم کرتے ہیں، انسان کو صرف فاعل (کرنے والا) اور کَاسِبُ (کمانے والا) قرار دیتے ہیں او ر قدریہ تمام افعال کا خالق اپنے آپ کو یعنی انسان کو قرار دیتے ہیں، گویا قدر اور فعل کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں، اس لیے ان کا نام قدریہ رکھا گیا، لیکن یہ عقیدہ قدیم قدریہ کا تھا جو ختم ہوچکے ہیں، معتزلہ کو بھی قدریہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اس بات کےقائل تھے کہ بندہ قادر ہے اور وہ خود اپنے افعال خیر ہوں یا شر، کفر وضلالت ہوں یا رشد وہدایت کاخالق ہے۔ رافضی یعنی شیعہ کا موقف بھی یہی ہے، اہل حدیث کے نزدیک ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اس کے سوا کوئی بھی خالق نہیں، یہاں تک کہ انسان کے ارادہ و اختیار اور انکار وخیالات کا خالق بھی وہی ہے ۔
جدید قدریہ: خیر کا خالق اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور شرکا انسان کو اس لیے ان کو محبوس قرار دیاجاتا ہے کیونکہ مجوسی بھی نور(یزداں) کو خالق خیر قرار دیتے ہیں اور ظلمت (اہرمن) کو خالق شر، جب کہ حقیقتًا یہ لوگ مجوس سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ انہوں نے تو ہر انسان کو خالق قرار دیا ہے۔ احسان: یہ ہے کہ ہر انسان، ہر عمل انتہائی خوبی وکمال کے ساتھ اس طرح سر انجام دے گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، کیونکہ یہ تو ایک حقیقت مسلمہ ہے کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اگرچہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے ہیں، اس طرح احسان کا تعلق انسان کی پوری زندگی اور ہر حرکت وعمل سے ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی وطاعت اوراس کے ہر حکم کی تعمیل اس طرح کی جائے اور اس کے مؤاخذہ ومحاسبہ سے اس طرح ڈرا جائے گویا وہ ہمارے سامنے ہے اور ہماری ہر حرکت وسکون اور ہر قول فعل کو دیکھ رہا ہے اور ہمارا داعیہ عمل جذبہ فعل اور اخلاص ومحنت اس پر عیاں ہے۔ اس حقیقت کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک غلام اپنے آقا کے حکم کی تعمیل ایک تو اس وقت کرتا ہے جب اس کا آقا ومالک اس کے سامنے موجود ہوتا ہے اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ میرا آقا میرے کام کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے اور ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ غلام کا آقا اس کے سامنےموجود نہیں ہوتا اوروہ یہ سمجھتا ہے کہ میرا مالک میرے کام کو دیکھ نہیں رہا ہے، عام طور پر ان دونوں قسم کے حالات میں فرق ہوتا ہے۔ جس قدر توجہ اوراہتمام اور محنت ولگن اور خوبصورتی وہنز مندی سے غلام آقا کے سامنے جب کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کام سر انجام دیتا ہے، اس کی عدم موجودگی یا نظر نہ آنے کی صورت میں اس قدر خوش اسلوبی اور محنت یا کاوش اور ذوق وشوق سے کام نہیں کرتا۔ یہی حال انسان کا اپنے خالق ومالک کے ساتھ ہے کہ جس وقت بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ میرا خالق ومالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ میرا ہر کام، ہر قول وفعل اور اس کاجذبہ محرکہ یا داعیہ عمل اس پر عیاں ہے، اس وقت اس کے عمل ورویہ میں جو دلی توجہ واہتمام، محنت ولگن اور اخلاص کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے وہ اس وقت نہیں ہوتا۔ جب اسے یہ احسان نہ ہو کہ میرا آقا ومالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ اس لیے ہر قول وعمل کے وقت اس احسان کا استحضار ہونا چاہیے کہ میں اپنے مالک کو دیکھ رہا ہوں جیسا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے کیونکہ اس کا دیکھنا ایک طے شدہ حقیقت ہے، اس لیے جذبہ مشاہدہ حق کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ نووی ؒ اور امام سندھی ؒ نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے، لیکن عام طور پر یہ معنی کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ درجہ اس حقیقت کو پیدا کرنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے، اس کو مشاہدہ حق کا نام دیا جاتا ہے۔ اگرچہ درجہ پیدا نہ ہوسکے تو کم از کم اس حقیقت کا تو استحضار وتصور ہونا چاہیے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) مجھے دیکھ رہا ہے، اگرچہ میں اسے نہیں دیکھ رہا ہوں اس کو مراقبہ حق کا نام دیاجاتا ہے۔ علامہ نووی ؒ وسندھی ؒ کے نزدیک انسان کا اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھنا ایک حقیقت ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا انسان کو دیکھنا ایک حقیقت ہے، اس لیے مراقبہ حق کا استحضار اور ذہن نشین ہونا ہی مشاہدہ حق کا ذریعہ وواسطہ ہے۔ اگر انسان کو کسی چیز کا علم نہ ہو تو اسے اہل علم سے دریافت کرنا چاہیے، اور اہل علم کو سائل کے سوال کا خندہ پیشانی سے جواب دینا چاہیے اور اگر صاحب علم کو کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو اسے صاف کہہ دینا چاہیے مجھے اس کا علم نہیں ہے، تحقیق وجستجو کے بعد بتا سکوں گا اور ہر سوال کا جواب معلوم نہ ہونا اہل علم کی شان کے منافی نہیں، کیونکہ عالم کے لیے ہر بات کا معلوم ہونا ضروری نہیں ہے۔ جبریل علیہ السلام اور نبی اکرم ﷺ کے سوالات اور جوابات اس حقیقت کا مظہر ہیں اور قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا: ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل: 43)’’اگر تمہیں علم نہ ہو تو اہل علم سے سے پوچھ لو۔‘‘علامات قیامت: (الف) لونڈی، اپنی مالکہ اور آقا کوجنے گی۔ شارحین حدیث نے اس جملہ کے مختلف معانی بیان فرمائے ہیں۔ دور حاضر کے مناسب معنی یہ ہے کہ قیامت کے وقوع اور قرب کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ماں باپ کی نافرمانی عام ہوجائے گی حتیٰ کہ بچیاں جن کی جبلت وسرشت میں ماؤں کی اطاعت اور فرمانبرداری کا جذبہ وافر ہوتا ہے، جن سے ماں کی سرکشی ونافرمانی کا صدور بظاہر بہت مشکل ہے وہ بھی نہ صرف یہ کہ ماؤں کی نافرمان ہوں گی، بلکہ الٹا ان پر اس طرح حکم چلائیں گی جس طرح ایک مالکہ اپنی لونڈی پر حکم چلاتی ہے۔ (ب) بھوکے، ننگے اور بکریوں کے چرواہے یعنی نچلے طبقہ کے لوگ اونچے اونچے محل او رقلعہ نما کوٹھیاں تعمیر کریں گے، اس فقرہ میں اس حقیقت کی نشان دہی فرمائی گئی ہے کہ قیامت کے قریب دینوی مال ودولت اور سرداری ، چودھراہٹ ان لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی جو اس کے اہل نہیں ہوں گے، ان کے نزدیک مال ودولت اور حکومت واقتدار کا مقصد ومصرف یہی ہوگا کہ اونچے اونچے اور شاندار محل بنوائے جائیں اور اسی کو سرمایہ فخر و مباہات قرار دیا جائے۔ اس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کی جائے گی ہمارے ملک کا صدارتی محل، وزیر اعظم ہاؤس اور ہمارے لیڈروں کی کوٹھیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے اس حقیقت کو ایک دوسری حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے: ((إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ))(بخاری) ’’جب حکومتی اختیارات اورعہدے ومناصب نا اہلوں کے سپرد ہونےلگیں تو پھر قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘ بعض شبہات کا ازالہ: (1) بعض حضرات نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یا محمد! کہنا اور اس کے ذریعہ ندا کرنا جائز قرار دیا ہے اور لکھا ہے یہ ندا ادب اور احترام کے خلاف نہیں، اگر ندا کرنا ادب واحترام کے خلاف ہوتا تو یا اللہ! کہنا بھی حرام ہوتا، اس کی تائید میں وہ احادیث بھی پیش کی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اورانبیاء نے رسول اللہ ﷺ کو یا محمد! کے ساتھ ندا اور خطاب کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے: (1) اللہ تعالیٰ، جبریل علیہ السلام اور بعض انبیا ء علیہم السلام کا آپ کو یا محمد (ﷺ) کہنا آپ کی دنیوی زندگی میں اور آپ کے سامنے تھا اور آج آپ (ﷺ) کو یا محمد حاضر ناظر سمجھ کر استعانت اور استغاثہ کےلیے کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ قیاس مع الفارق ہے، آپ کو حاضر وناظر سمجھنا اور اس وقت آپ سےاستعانت واستغاثہ کرنا قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ کیونکہ آپ کو اب حیات برزخی حاصل ہے، اور آپ کا ہم سے تعلق ورابطہ ختم ہو چکا ہے، اس لیے اس عقیدہ کی صورت میں تو یا رسول اللہ! کہنا بھی درست نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It is narrated on the authority of Yahya bin Ya'mur that the first man who discussed about Qadr (Divine Decree) in Basrah was Ma'bad al-Juhani. I along with Humaid bin 'Abdur-Rahman Himyari set out for prilgrimage or for 'Umrah and said: Should it so happen that we come into contact with one of the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ) (peace be upon him) we shall ask him a bout what is talked about Taqdir (Division Decree). Accidentally we came across 'Abdullah Ibn 'Umar ibn al-Khattab, while he was entering the mosque. My companion and I surrounded him. One of us (stood) on his right and the other stood on his left. I expected that my companion would authorize me to speak. I therefore said: Abu Abdur Rahman! There have appeared some people in our land who recite the Holy Qur'an and pursue knowledge. And then after talking about their affairs, added: They (such people) claim that there is no such thing as Divine Decree and events are not predestined. He ('Abdullah Ibn 'Umar) said: When you happen to meet such people tell them that I have nothing to do with them and they have nothing to do with me. And verily they are in no way responsible for my (belief). 'Abdullah Ibn 'Umar swore by Him (the Lord) (and said): If any one of them (who does not believe in the Divine Decree) had with him gold equal to the bulk of (the mountain) Uhud and then, it (in the way of Allah), Allah would not accept it unless he affirmed his faith in Divine Decree. He further said: My father, Umar ibn al-Khattab, told me: One day we were sitting in the company of Allah's Apostle (ﷺ) (peace be upon him) when there appeared before us a man dressed in pure white clothes, his hair extraordinarily black. There were no signs of travel on him. None amongst us recognized him. At last he sat with the Apostle (ﷺ) (peace be upon him) He knelt before him placed his palms on his thighs and said: Muhammad, inform me about al-Islam. The Messenger of Allah (ﷺ) (peace be upon him) said: Al-Islam implies that you testify that there is no god but Allah and that Muhammad is the messenger of Allah, and you establish prayer, pay Zakat, observe the fast of Ramadan, and perform pilgrimage to the (House) if you are solvent enough (to bear the expense of) the journey. He (the inquirer) said: You have told the truth. He (Umar ibn al-Khattab) said: It amazed us that he would put the question and then he would himself verify the truth. He (the inquirer) said: Inform me about Iman (faith). He (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, in His angels, in His Books, in His Apostles, in the Day of Judgment, and you affirm your faith in the Divine Decree about good and evil. He (the inquirer) said: You have told the truth. He (the inquirer) again said: Inform me about al-Ihsan (performance of good deeds). He (the Holy Prophet) said: That you worship Allah as if you are seeing Him, for though you don't see Him, He, verily, sees you. He (the enquirer) again said: Inform me about the hour (of the Doom). He (the Holy Prophet) remarked: One who is asked knows no more than the one who is inquiring (about it). He (the inquirer) said: Tell me some of its indications. He (the Holy Prophet) said: That the slave-girl will give birth to her mistress and master, that you will find barefooted, destitute goat-herds vying with one another in the construction of magnificent buildings. He (the narrator, Umar ibn al-Khattab) said: Then he (the inquirer) went on his way but I stayed with him (the Holy Prophet) for a long while. He then, said to me: Umar, do you know who this inquirer was? I replied: Allah and His Apostle (ﷺ) knows best. He (the Holy Prophet) remarked: He was Gabriel (ؑ) (the angel). He came to you in order to instruct you in matters of religion.