Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: Stern warning against wailing)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
937.
عاصم نے حفصہ سے اور انھوں نے حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہو ئی: ’’عورتیں آپ سے بیعت کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔۔۔اور کسی نیک کام میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی۔‘‘ کہا: اس (عہد) میں سے ایک نوحہ گری (کی شق) بھی تھی تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! فلا ں خاندان کے سوا کیونکہ انھوں نے جاہلیت کے دور میں (نوحہ کرنے پر) میرے ساتھ تعاون کیا تھا تو اب میرے لیے بھی لازمی ہے کہ میں (ایک بار) ان کے ساتھ تعاون کروں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فلاں کے خاندان کے سوا۔‘‘
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
عاصم نے حفصہ سے اور انھوں نے حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہو ئی: ’’عورتیں آپ سے بیعت کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔۔۔اور کسی نیک کام میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی۔‘‘ کہا: اس (عہد) میں سے ایک نوحہ گری (کی شق) بھی تھی تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! فلا ں خاندان کے سوا کیونکہ انھوں نے جاہلیت کے دور میں (نوحہ کرنے پر) میرے ساتھ تعاون کیا تھا تو اب میرے لیے بھی لازمی ہے کہ میں (ایک بار) ان کے ساتھ تعاون کروں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فلاں کے خاندان کے سوا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے: کہ جب سورۃ ممتحنہ کی یہ آیت اتری: ’’عورتیں آپ سے اس بات پر بیعت کریں کہ وہ اللہ تعا لیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔۔۔اور آخر میں ہے کہ کسی نیک کا م میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی۔‘‘ (آیت:12) وہ بتاتی ہیں (باز رہنے والی چیزرں میں) نوحہ بھی داخل تھا۔ تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فلا ں خاندان کے سوا، کیونکہ انھوں نے جا ہلیت کے دور میں نوحہ کرنے میں میرے ساتھ تعاون کیا تھا تو میرے لیے ان تعاون بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فلاں شخص کا خاندان مستثنیٰ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض کام ناجائز ہوتے ہیں لیکن اللہ کا رسول چونکہ اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے وہ اللہ کی منشا اور مرضی کے مطابق، بعض لوگوں کو وقتی طور پر اس کام کرنے کی اجازت دے دیتا ہے اور اس وقتی اجازت کے بعد وہ انسان بھی دوسروں کے ساتھ اس حکم میں شریک ہوتا ہے لیکن اس وقتی اجازت کا یہ معنی نہیں ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مستقل طور پر یہ اختیار دے دیا ہے کہ آپ عمومی احکام میں سے جس فرد کو چاہیں خاص کر لیں، بلکہ یہ کام آپ: ﴿لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ﴾(النساء:105)تاکہ آپ لوگوں میں اس کے مطابق فیصلہ کریں جو بات اللہ تعالیٰ نے آپ کو سجھائی ہے اصول کےمطابق کرتے ہیں اس لیے اگر آپﷺ کا کوئی فیصلہ یا حکم اللہ تعالیٰ کی منشاء مرضی کے مطابق نہ ہوتا تو فوراً آپ کو آگاہ کر دیا جاتا تھا۔ اور اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا فرستادہ اور نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم متصور ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾(النساء:80) ’’جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے‘‘ اس لیے آپﷺ نے بعض احکام قرآن سے زائد اور مستقل دئیے ہیں۔ جن کا بعض حضرات نے حیلوں بہانوں سے انکارکیا ہے۔ مثلاً آپ کا ایک شاہد (گواہ) کی موجودگی میں مدعی سے قسم لینا، دودھ روکے ہوئے جانور کو دو صاع کھجور دے کر، جانور کے مالک کو واپس کرنا۔ آپﷺ کا نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا وغیرہ بے شمار احادیث ہیں، جن کو یہ حضرات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hafsa narrated on the authority of Umm 'Atiyya that she said: When this verse was revealed:" When believing women came to thee giving thee a pledge that they will not associate aught with Allah, and will not disobey thee in good" (lx. 12), she (Umm Atiyya) said: In (this pledge) was also included wailing. I said: Messenger of Allah (ﷺ) I except members of such a tribe who helped me (in lamentation) during pre-Islamic days, there is left no alternative for me, but that I should also help them. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) said: (Yes) but only in case of the members of such a tribe.