Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: Shrouding the deceased well)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
943.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا، آپﷺ نے اپنے اصحاب میں سے ایک آدمی کا تذکرہ فرمایا جو فوت ہوا تو اس کو معمولی (کپڑے میں) کفن دیا گیا اور رات ہی کو دفن کر دیا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے کسی بھی آدمی کو رات کو دفن کرنے سے ڈانٹ کر روکا یہاں تک کہ اس کی (شان شایان طریقے سے) نماز جنازہ ادا کی جا ئے الاً یہ کہ کوئی انسان اس پر مجبور ہو جائے اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے اچھا کفن دے۔‘‘
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا، آپﷺ نے اپنے اصحاب میں سے ایک آدمی کا تذکرہ فرمایا جو فوت ہوا تو اس کو معمولی (کپڑے میں) کفن دیا گیا اور رات ہی کو دفن کر دیا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے کسی بھی آدمی کو رات کو دفن کرنے سے ڈانٹ کر روکا یہاں تک کہ اس کی (شان شایان طریقے سے) نماز جنازہ ادا کی جا ئے الاً یہ کہ کوئی انسان اس پر مجبور ہو جائے اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے اچھا کفن دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوزبیر بتاتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا اور اپنے ساتھیوں میں سے ایک آدمی کا تذکرہ فرمایا، جسے مرنے کے بعد حقیر سے چھوٹے کپڑے میں کفن دیا گیا، اور رات ہی کو دفن کردیا گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر سرزنش وتوبیخ فرمائی کہ کسی آدمی کو جنازہ پڑھے بغیر رات کو دفن کر دیا جائے، الا یہ کہ کوئی انسان ایسا کرنے پر مجبور ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کوکفن دے تو اچھا کفن دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ میت کی بھلائی اور بہتری کی خاطر اسے ایسے وقت میں دفن کیا جائے جس وقت اس کی نماز میں زیادہ لوگ شریک ہو کر اس کے لیے دعا کر سکیں۔ اور خصوصی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، آپﷺ دن کے جنازوں میں شریک ہوتے تھے۔ اس لیے دن کے جنازہ میں زیادہ لوگ جمع ہو جاتے تھے لیکن اگر رات کے جنازہ میں زیادہ لوگ جمع ہو سکتے ہوں تو رات کو بھی جنازہ پڑھایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بہت سے دوسرے بزرگوں کا جنازہ رات کو پڑھایا گیا ہے۔ لیکن کفن کی خست وحقارت کے سبب اور نماز جنازہ کی پرواہ کیے بغیر رات کے دفن کرنا درست نہیں ہے۔ 2۔ کفن صاف ستھرے، سفید اور اچھے کپڑے سے تیار کرنا چاہیے جو میت کو پوری طرح ڈھانپتا ہو لیکن اچھے کا معنی قیمتی نہیں ہے کہ ریا وسمع کرتے ہوئے بیش قیمت کفن تیار کیا جائے بلکہ عام طور پر مرنے والا جو صاف ستھرااوراچھا لباس پہنتا تھا۔ اسی قسم کا کفن ہونا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin 'Abdullah reported: Allah's Messenger (ﷺ) one day in the course of his sermon made mention of a person among his Companions who had died and had been wrapped in a shroud not long (enough to cover his whole body) and was buried during the night. The Apostle of Allah (ﷺ) reprimanded (the audience) that a person was buried during the night (in a state that) funeral prayer could not be offered (over him by the Messenger of Allah) (ﷺ) . (And this is permissible only) when it becomes a dire necessity for a man. The Apostle of Allah (ﷺ) also said: When any one of you shrouds his brother, he should shroud him well.