Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: Praying over the grave)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
956.
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ یا ایک نوجوان تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ پایا تو آپ ﷺ نے اس عورت۔ یا اس مرد۔ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے کہا: وہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگوں کو مجھے اطلاع نہیں دینی چاہیے تھی؟‘‘ کہا: گویا ان لوگوں نے اس عورت۔ یا اس مرد۔ کے معاملے کو معمولی خیال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔‘‘ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ ﷺ کو اس کی قبر دیکھائی۔ تو آپ ﷺ نےاس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر فرمایا: ’’اہل قبور کے لئے یہ قبریں تاریکی سے بھری ہوئی ہیں اورمیری ان پر نماز پڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے لئے ان (قبروں) کو منور فرما دیتا ہے۔‘‘
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ یا ایک نوجوان تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ پایا تو آپ ﷺ نے اس عورت۔ یا اس مرد۔ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے کہا: وہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگوں کو مجھے اطلاع نہیں دینی چاہیے تھی؟‘‘ کہا: گویا ان لوگوں نے اس عورت۔ یا اس مرد۔ کے معاملے کو معمولی خیال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔‘‘ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ ﷺ کو اس کی قبر دیکھائی۔ تو آپ ﷺ نےاس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر فرمایا: ’’اہل قبور کے لئے یہ قبریں تاریکی سے بھری ہوئی ہیں اورمیری ان پر نماز پڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے لئے ان (قبروں) کو منور فرما دیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک حبشن (حبشی عورت) یا حبشی جوان مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گم پایا (اس کو نہ دیکھا) تو اس عورت یا مرد کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بتایا: وہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں؟‘‘ راوی کا خیال ہے گویا کہ سب نے اس کے معاملہ کو حقیر خیال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔‘‘ ساتھیوں نے اس کی قبر دیکھائی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس انسان کا جنازہ پڑھا، پھر فرمایا: ’’یہ قبریں قبر والوں کے لیے اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالی میری ان پر نماز پڑھنے سے ان کو (قبروں کو) ان کے لئے (اموات) کے لیے روشن اور منور فرما دیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ مسجد کی دیکھ بھال اور صفائی کرنا ایک بہت اچھا کام ہے ۔اس کام کو حقیر خیال نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ امام کو اپنے مقتدیوں کا خیال رکھنا چاہیے اگر ان میں سے کوئی غیر حاضر ہو یا نظر نہ آئے تو اس کے بارے میں ساتھیوں سے معلومات حاصل کرنی چاہیے۔ 3۔ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو عام جنازہ کا ہے جمہور کے نزدیک قبر پر جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صرف میت کا ولی اگر اس نے جنازہ نہ پڑھا ہو تو قبر پر جنازہ پڑھ سکتا ہے۔ 4۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی قبر پر جنازہ پڑھنا صحیح نہیں ہے یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی نماز جنازہ پڑھی تھی۔ 5۔ قبر کی ظلمت اور اندھیرا نیک لوگوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں زائل ہو جاتا ہے اور قبر روشن ہو جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It is narrated on the authority of Abu Hurairah (RA) that a dark-complexioned woman (or a youth) used to sweep the mosque. The Messenger of Allah (ﷺ) missed her (or him) and inquired about her (or him). The people told him that she (or he) had died. He asked why they did not inform him, and it appears as if they had treated her (or him) or her (or his) affairs as of little account. He (the Holy Prophet) said: Lead me to her (or his) grave. They led him to that place and he said prayer over her (or him) and then remarked: Verily, these graves are full of darkness for their dwellers. Verily, the Mighty and Glorious Allah illuminates them for their occupants by reason of my prayer over them.