Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: Praying over the grave)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
957.
عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ نے کہا: زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بن ارقم) ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے، انھوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں، میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ (بسا اوقات) اتنی (پانچ) تکبیریں کہا کرتے تھے۔
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ نے کہا: زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بن ارقم) ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے، انھوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں، میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ (بسا اوقات) اتنی (پانچ) تکبیریں کہا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے جنازوں پر چارتکبیرات کہا کرتے تھے، اور انہوں نے ایک جنازہ پر پانچ تکبیریں کہیں تو میں نے ان سے پوچھا، انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (بعض دفعہ) ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر جنازہ میں چارتکبیرات کہتے تھے اور عام طور پر خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی یہی طریقہ تھا لیکن بعض اوقات ان سے زائد تکبیریں بھی آپﷺ سے ثابت ہیں یعنی پانچ سے سات تک۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It is narrated on the authority of 'Abdul Rahman bin Abu Laila that Zaid used to recite four takbirs on our funerals and he recited five takbirs on one funeral. I asked him the reason (for this variation), to which he replied: The Messenger of Allah (ﷺ) recited thus.