Muslim:
The Book of Prayer - Funerals
(Chapter: Leaving the funeral prayer for one who committed suicide)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
978.
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے اپنے آپ کو ایک چوڑے تیر سے قتل کر ڈالا تھا تو آپﷺ نے (خود) اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (دوسروں کو پڑھنے کا حکم دیا جس طرح ابتداء میں آپﷺ دوسروں کو مقروض کا جنازہ پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔)
دنیا میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کی طرح آخری مرحلے کے لئے بھی اسلام انتہائی عمدہ رہنمائی عطا کرتاہے مقصود یہ ہے کہ مراحل باوقار،عمدہ اور حرمت انسانی کے لئے شایان شان طریقے سے ادا ہوں۔جو مومن رخصت ہورہا ہے،اسے محبت اور احترام سے اللہ کی رحمت کےسائے میں روانہ کیا جائے۔وہ اس کائنات کی سب سےبڑی سچائی"لاالٰہ الا اللہ" کی گواہی دیتا ہوا جائے۔پھر جب روح چلی جائے تو جسم کو بھی پاکیزگی کے عالم میں خوشبوؤں میں بسا کر،دعاؤں کےسائے میں اسی زمین کی گود کے سپرد کیا جائےجس سے اس جسم کی تخلیق ہوئی تھی۔ساتھ چلنے والے ایسا کوئی کام نہ کریں جو جانے والے یا خود ان کے اپنے شایان شان نہ ہو۔اس کی اچھی یادوں کو دہرائیں،اس کی خوبیاں بیان کریں،مرنے کے بعد دوسرے انسانوں کے سامنے جھوٹےتکبر،غرور، برتری اور ریاکاری کا کوئی مظاہرہ سامنےنہ آئے اور غم واندوہ کے مناسب وقفے کے بعد پسماندگان باوقار طریقے سے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔جہاں جانے والا گیا ہے،وہیں کے سفر کی تیاری کریں۔زندگی میں ان کےٹھکانوں کی زیارت کرکےان کے لئے دعائیں کی جائیں اور اپنی منزل کی یاد تازہ رکھی جائے۔دنیا کے کسی مذہب نے موت کے سفر کے لئے ایسے بامقصد،خوبصورت اور سادگی سے معمور طریقوں کی تعلیم نہیں دی۔اسلام کے سکھائے ہوئے طریقے ہر اعتبار سے متوازن،آسان اور باوقار ہیں۔انسانی جثے کو نہ تو درندوں اور پرندوں کے لئے کھلا چھوڑنے کی اجازت ہے۔نہ دوبارہ عناصر فطرت کا حصہ بنانے کے لئے ظالمانہ طریقے سے آگ میں بھسم کرنے کی ضرور ت ہے،نہ فراعنہ کی طرح مرے ہوئے کی لاش کے ساتھ ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کرکے بطور خدم وچشم ہمراہ بھیجنے کی گنجائش ہے،نہ لاکھوں انسانوں کو مجبور کرکے قبروں کے لئے اہرام یا زمین دوز محلات تعمیر کرنے کا کوئی تصور ہے۔اور نہ دنیا بھر کے خزانوں کو لاشوں کے ساتھ زمین دوز کرنے کا۔اسلام نے اس حوالے سے بہت بڑی حقیقت کو بہت سادہ انداز میں سمجھا دیا ہے۔مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ "اسی(مٹی) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں ایک بار اور نکالیں گے۔"(طہٰ۔20:55)امام مسلم ؒ نے کتاب الجنائز میں،جانے والے(قریب المرگ) کو کلمے کی تلقین،اس کی عیادت اور اس کےلئے آسانیوں سے آغاز کیا ہے۔پھر صدمے کو برداشت کرنے کے طریقے،صبروبرداشت،نالہ وشیون اور شور غوغا سے پرہیز کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات تفصیل سے بیان کی ہیں۔پھر میت کے غسل،خوشبو لگانے،اور تکفین کا ذکرہے،پھر نماز جنازہ کے حوالے سے مفصل رہنمائی ہے۔جو جنازہ نہ پڑھ سکے اس کے لئے قبر پر جنازہ پڑھنے کا موقع موجود ہے۔میت اور قبر کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے لئے مفصل ہدایات ہیں،پھر قبر بنانے اور بعد از تدفین قبروں پر جا کر فوت ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔الغرض دنیوی زندگی کے آخری مرحلے کا کوئی پہلو تشنہ باقی نہیں چھوڑا۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے اپنے آپ کو ایک چوڑے تیر سے قتل کر ڈالا تھا تو آپﷺ نے (خود) اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (دوسروں کو پڑھنے کا حکم دیا جس طرح ابتداء میں آپﷺ دوسروں کو مقروض کا جنازہ پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جس نے اپنے آپ کو ایک چوڑے تیر سے قتل کر ڈالا تھا، تو آپﷺ نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
مشاقص: مفرد۔ مشقص: چوڑے تیر۔
فوائد ومسائل
حضرت عمر بن عبدالعزیز اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف یہی ہے کہ قاتل نفس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی لیکن امام حسن رحمۃ اللہ علیہ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ۔نخعی رحمۃ اللہ علیہ، مالک رحمۃ اللہ علیہ، ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کے نزدیک خود کشی کرنے والے مسلمان کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی، آپﷺ نے اس فعل اور حرکت سے باز رکھنے کے لیے توبیخ وسرزنش کے طور پر جنازہ نہیں پڑھا، جیسا کہ نسائی کی روایت میں ہے۔ (أنا لا أصلي) میں نماز جنازہ نہیں پڑھتا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو جنازہ پڑھنے سے نہیں روکا، اس لیے معلوم ہوتا ہے۔ قابل احترام اور صاحب شخصیت کو جس کے نماز میں شریک نہ ہونے سے لوگ متاثر ہوں، نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور عام مسلمانوں کو جنازہ پڑھنا چاہیے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہی ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ قاتل نفس توبہ کا موقع نہیں پاتا۔ اس لیے اس کی توجہ نہ ہونے کے بنا پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائےگی۔ جس کا مطلب یہ ہوا، اگر اس کو کچھ زندگی ملی، جس میں توبہ کر سکا۔ تو پھر نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin ahadeeth reported: (The dead body) of a person who had killed himself with a broad-headed arrow was brought before the Apostle of Allah (ﷺ) , but he did not offer prayers for him.