صحیح مسلم
24. کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
6. باب: تنگ دست کو مہلت دینے ئاور خوشحال اور نادار (دونوں )سے تقاضے میں رعایت کی فضیلت
صحيح مسلم
24. كتاب المساقاة والمزارعة
6. بَابُ فَضْلِ إِنْظَارِ الْمُعْسِرِ
Muslim
24. The Book of Musaqah
6. Chapter: The virute of giving more time to one who is suffering difficulty, and letting those go who are suffering difficulty and those who are well off
کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: تنگ دست کو مہلت دینے ئاور خوشحال اور نادار (دونوں )سے تقاضے میں رعایت کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The virute of giving more time to one who is suffering difficulty, and letting those go who are suffering difficulty and those who are well off)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1560.02.
عبدالملک بن عمیر نے ربعی بن حراش سے، انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی: ’’ایک آدمی فوت ہوا اور جنت میں داخل ہوا تو اس سے کہا گیا: تو کیا عمل کرتا تھا؟ ۔۔ کہا: اس نے خود یاد کیا یا اسے یاد کرایا گیا ۔۔ اس نے کہا: (اے میرے پروردگار!) میں لوگوں سے (قرض پر) خرید و فروخت کرتا تھا، تو میں تنگ دست کو مہلت دیتا اور سکہ اور نقدی وصول کرنے میں نرمی کرتا تھا، تو اس کی مغفرت کر دی گئی‘‘ اس پر حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے بھی یہی حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔
تشریح:
فوائد و مسائل:
وصول میں نرمی کے کئی پہلو ہیں۔ نقدی سے مراد سونا چاندی اور سکے سے مراد ان دھاتوں یا دوسری دھاتوں کے ڈھلے ہوئے سکے ہیں۔ سونے چاندی کے معیار میں یا ڈھلے ہوئے سکے میں وزن یا دھات کے معیار کے حوالے سے چھوٹا موٹا فرق نظر انداز کر دینا نرمی ہے۔ وعدے میں تاخیر کو قبول کر لینا نرمی ہے۔ اکٹھی وصولی کی بجائے قسطوں میں لے لینا نرمی ہے۔ سارے قرض کی بجائے کچھ تخفیف کر کے لے لینا نرمی ہے۔
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
عبدالملک بن عمیر نے ربعی بن حراش سے، انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی: ’’ایک آدمی فوت ہوا اور جنت میں داخل ہوا تو اس سے کہا گیا: تو کیا عمل کرتا تھا؟ ۔۔ کہا: اس نے خود یاد کیا یا اسے یاد کرایا گیا ۔۔ اس نے کہا: (اے میرے پروردگار!) میں لوگوں سے (قرض پر) خرید و فروخت کرتا تھا، تو میں تنگ دست کو مہلت دیتا اور سکہ اور نقدی وصول کرنے میں نرمی کرتا تھا، تو اس کی مغفرت کر دی گئی‘‘ اس پر حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے بھی یہی حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
وصول میں نرمی کے کئی پہلو ہیں۔ نقدی سے مراد سونا چاندی اور سکے سے مراد ان دھاتوں یا دوسری دھاتوں کے ڈھلے ہوئے سکے ہیں۔ سونے چاندی کے معیار میں یا ڈھلے ہوئے سکے میں وزن یا دھات کے معیار کے حوالے سے چھوٹا موٹا فرق نظر انداز کر دینا نرمی ہے۔ وعدے میں تاخیر کو قبول کر لینا نرمی ہے۔ اکٹھی وصولی کی بجائے قسطوں میں لے لینا نرمی ہے۔ سارے قرض کی بجائے کچھ تخفیف کر کے لے لینا نرمی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرمﷺ سے نقل کرتے ہیں، ’’ایک آدمی مر کر جنت میں داخل ہو گیا، اس سے پوچھا گیا، تم کیا عمل کرتے تھے؟ راوی نے بتایا، اسے خود یاد آ گیا یا اسے (فرشتوں نے) یاد دلایا، اس نے کہا: میں لوگوں کو سودا بیچتا تھا، (اور اس میں) میں تنگدست کو مہلت دیتا تھا، اور سکہ دینار ودرہم، یا نقدی کی وصولی میں درگزر کرتا تھا، یعنی نقدی کے عیب یا معمولی کمی سے درگزر کرتا تھا، تو اسے معاف کر دیا گیا‘‘ حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا: میں نے بھی یہ روایت رسول اللہﷺ سے سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
جنت میں داخلہ کا فیصلہ سال و جواب کے نتیجہ میں معافی ملنے کے بعد ہوگا، چونکہ یہ واقعہ ایک قطی حقیقت ہے، جسے پیش آنا ہے، اس کا اسے یوں بیان کردیا گیا ہے، گویا کہ یہ پیش آچکا ہے، یا موت کے بعد ہی اپنے عملوں کے مطابق، جنت اور دوزخ کے حالات کا آغاز ہو جاتا ہے، اس لیے اس کو جنت میں داخل ہونے سے تعبیر کر دیا ہے، کیونکہ پہلی روایت میں یہی سوال وجواب فرشتے، روح کے قبض کرنے کے بعد کر چکے ہیں، اور وہاں معافی مل چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hudhaifa (RA) reported Allah's Apostle (ﷺ) as saying: A person died and he entered Paradise. It was said to him What (act) did you do? (Either he recalled it himself or he was made to recall), he said I used to enter into transactions with people and I gave respite to the insolvent and did not show any strictness in case of accepting a coin or demanding cash payment. (For these acts of his) he was granted pardon. Abu Mas'ud said: I heard this from Allah's Messenger (ﷺ) .