باب: اہل کتاب کو سلام کرنے میں ابتدا کی ممانعت اور ان کے سلام کا جواب کیسے دیا جا ئے
)
Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: The Prohibition Of Initiating The Greeting With The People Of The Book, And How To Respond To Them)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2165.02.
ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے مسلم سے انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ ﷺ کے پاس یہود میں سے کچھ لو گ آئے، انھوں نے آکر کہا: (السام عليك يا أبا القاسم) (ابو القاسم !آپ پر موت ہو) کہا آپﷺ نے فرمایا: ’’وَ عَلَيكُم (تم لوگوں پر ہو!) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: ’’بلکہ تم پر موت بھی ہو ذلت بھی۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! زبان بری نہ کرو۔‘‘ انھوں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے کہا: آپ نے نہیں سنا، انھوں نے کیا کہا تھا ؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انھوں نے جو کہا تھا میں نے ان کو لوٹا دیا ،میں نے کہا: تم پر ہو ۔‘‘
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے مسلم سے انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ ﷺ کے پاس یہود میں سے کچھ لو گ آئے، انھوں نے آکر کہا: (السام عليك يا أبا القاسم)(ابو القاسم !آپ پر موت ہو) کہا آپﷺ نے فرمایا: ’’وَ عَلَيكُم(تم لوگوں پر ہو!) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: ’’بلکہ تم پر موت بھی ہو ذلت بھی۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! زبان بری نہ کرو۔‘‘ انھوں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے کہا: آپ نے نہیں سنا، انھوں نے کیا کہا تھا ؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انھوں نے جو کہا تھا میں نے ان کو لوٹا دیا ،میں نے کہا: تم پر ہو ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ یہودی لوگ آئے اور کہا، السام عليك، اے ابو القاسم! آپﷺ نے فرمایا: ’’اور تم پر‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں، میں نے کہا، بلکہ تم پر موت اور مذمت (سام و ذامّ) ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! بدگو یا بدزبان مت بنو‘‘ تو اس نے کہا، انہوں نے جو کچھ کہا، آپ نے سنا نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا جو کچھ انہوں نے کہا ہے، میں اس کا جواب نہیں دے چکا ہوں؟ میں نے کہہ دیا، وَعَليكم۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported that some Jews came to Allah's Apostle (ﷺ) and they said: Abu'l-Qasim (the Kunya of the Holy Prophet), as-Sam-u-'Alaikum, whereupon he (the Holy Prophet) said: Wa 'Alaikum. A'isha reported: In response to these words of theirs, I said: But let there be death upon you and disgrace also, whereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: 'A'isha, do not use harsh words. She said: Did you hear what they said? Thereupon he (the Holy Prophet) said: Did I not respond to them when they said that; I said to them: Wa'Alaikum (let it be upon you).