باب: اجازت طلب کرنے والے سے جب پوچھا جا ئے "کون"ہے تو جواب میں (صرف)"میں"کہنا مکروہ ہے
)
Muslim:
The Book of Manners and Etiquette
(Chapter: It Is Disliked For The Person Who Is Seeking Permission To Say "Me" When Asked "Who Is It?")
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2155.
عبداللہ بن ادریس نے شبعہ سے انھوں نے محمد بن منکدر سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آواز دی نبی ﷺ نے فر مایا: ’’کون ہے‘‘؟ میں نے کہا: میں۔ آپﷺ باہر تشریف لائے اور آپﷺ فرما رہے تھے َ’’میں ،میں(کیسا جواب ہے؟)‘‘
ادب سے مراد زندگی گزارنے کے طریقوں میں سے بہترین طریقہ سیکھنا اور اختیار کرنا ہے۔ ایسا طریقہ جس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی آسان ،مشکلات سے محفوظ،خوشگوار اور عزت مند ہو جائے رسول اللہ ﷺ کے فرمان(أدَّبَبَنِي رَبِّي فأحْسَنَ تَأ دِيبِي)"" میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہترین انداز میں سکھایا ‘‘ میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے وہی بہترین ادب اپنی امت کو بھی سکھایا ہے آپ نے ایسے عمومی آداب بھی سکھائے جو ہر انسان کے لیے ہیں ، اور اسے معزز اور لوگوں کا محبوب بنا دیتے ہیں آپ ﷺ نے خاص ذمہ داریوں اور پیشوں کے حوالے سے بھی بہترین آداب سکھائے ہیں،مدرس کے آداب ،طالب علم کے آداب ،قاضی اور حاکم وغیرہ کے آداب۔
ادب کا لفظ کسی زبان کی ان تحریروں پر بھی بولا جاتا ہے جو انسان کی دلی واردات کی ترجمانی کرتی ہیں یا ان کے ذریعے سے مختلف شخصیات کے حوالے سے کسی انسان کے جو جذبات ہیں، ان کا اظہار ہوتا ہے اس کے لیے نظم و نثر کے نوع در نوع کئی پیرائے اختیار کیے جاتے ہیں ان پر بھی لفظ ادب کے اطلاق کا ایک سبب یہی ہے کہ اس سے بھی کئی معاشرتی حوالوں سے انسانوں کی تربیت ہوتی ہے اردو اصطلاح میں فنون ادب کے لیے ’’ادبیات‘‘ کی اصطلاح مروج ہے۔
امام مسلم نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے آداب کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خوبصورت طریقے اور آپ کی تعلیمات اس کتا ب میں اور اس کے بعد کی متعدد ذیلی کتب میں جمع کی ہیں وہ سب بھی حقیقت میں کتاب الآداب ہی کا حصہ ہیں ۔انھیں اپنی اہمیت کی وجہ سے الگ الگ کتا ب کا عنوان دیا گیا ہے لیکن سب کا تعلق آداب ہی سے ہے بعض شارحین نے کتاب الرؤیا تک اگلے تمام ابواب کو کتاب الآداب ہی میں ضم کر دیا ہے اس سلسلے کی پہلی کتاب میں جس کا نام بھی کتاب الآداب ہے،ان میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی کنیت اور آپ کے نامِ نامی کے حوالے سے ادب بیان کیا گیا ہے اس کے بعد نام رکھنے کے آداب ، نا مناسب ناموں سے بچنے اور اگر رکھے ہوئے ہوں تو ان کو بدلنے کی اہمیت ،احترام،محبت اور شفقت کے اظہار کے لیے کسی اچھے رشتے کے نام پر کسی کو پکارنے کا جواز وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت احادیث بیان کی گئی ہیں اس کے بعد کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے،اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانے کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ آخر میں گھروں کی خلوت کے احترام کی تاکید کے متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
عبداللہ بن ادریس نے شبعہ سے انھوں نے محمد بن منکدر سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آواز دی نبی ﷺ نے فر مایا: ’’کون ہے‘‘؟ میں نے کہا: میں۔ آپﷺ باہر تشریف لائے اور آپﷺ فرما رہے تھے َ’’میں ،میں(کیسا جواب ہے؟)‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آیا اور آواز دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تم کون ہو؟‘‘ میں نے کہا، میں ہوں تو آپﷺ یہ فرماتے ہوئے نکلے ’’میں ہوں، میں ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جب کوئی شخص اجازت طلب کرے اور اہل خانہ پوچھیں، تم کون ہو؟ تو جواب میں، میں ہوں، نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ آواز نہ پہچاننے کی بنا پر تو سوال ہوا تھا اور میں کہنے سے تو مقصد حاصل نہ ہو سکا، نیز اس سے تکبر اور کبریائی کی بو آتی ہے کہ مجھے شناخت کروانے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ایسے موقع پر اجازت طلب کرنے والے کو اپنی مکمل شناخت کروانی چاہیے، تاکہ کوئی ابہام نہ رہے اور اس کے ساتھ اس کے شایان شان سلوک کیا جا سکے، اس لیے حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کرتے وقت کہا تھا، یہ عبداللہ بن قیس اجازت طلب کر رہا ہے، یہ ابو موسیٰ حاضر ہے، یہ اشعری موجود ہے، بعض دفعہ محض نام بتانے سے شناخت نہیں ہوتی، اس لیے یہ لطیفہ پیش آیا تھا کہ امام زمخشری سے کسی نحوی نے اجازت طلب کی تو اس نے پوچھا، تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا، عمر (لیکن اس سے شناخت نہ ہو سکی) تو زمخشری نے کہا، واپس لوٹ جاؤ، اجازت طلب کرنے والے نے کہا، عمر منصرف نہیں ہے، زمخشری نے کہا، اگر اس کو نکرہ بنا دیا جائے تو وہ منصرف ہو جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin'Abdullah (RA) reported: I came to Allah's Apostle (ﷺ) and called him (with a view to seeking permission), whereupon Allah's Apostle (ﷺ) said: Who is it? I said: It is I. Thereupon he (the Holy Prophet) came out saying: It is I. it is I.