صحیح مسلم
50. کتاب: ذکر الٰہی،دعا،توبہ اور استغفار
19. باب: دن کے آغاز اور سوتے وقت تسبیح کرنا
صحيح مسلم
50. كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار
19. بَابُ التَّسْبِيحِ أَوَّلَ النَّهَارِ وَعِنْدَ النَّوْمِ
Muslim
50. The Book Pertaining to the Remembrance of Allah, Supplication, Repentance and Seeking Forgiveness
19. Chapter: The Tasbih At The Beginning Of The Day And When Going To Sleep
Muslim:
The Book Pertaining to the Remembrance of Allah, Supplication, Repentance and Seeking Forgiveness
(Chapter: The Tasbih At The Beginning Of The Day And When Going To Sleep)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2727.
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے ابن ابی لیلی سے سنا، انہوں نے کہا: ہمیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو چکی پیسنے سے جو زحمت برداشت کرنی پڑی اس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں تکلیف ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے۔ آپ کی طرف گئیں، لیکن آپ ﷺ کو (گھر میں) نہ پایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ملیں اور انہیں (اپنی تکلیف کے بارے میں) بتایا۔ جب نبی ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ کو ان (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا) کے اپنے پاس آنے کے بارے میں بتایا تو رسول اللہ ﷺ ہمارے ہان تشریف لائے ۔۔ اس وقت ہم اپنے اپنے بستروں میں جا چکے تھے، ہم کھڑے ہونے لگے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’دونوں اپنی اپنی جگہ پر رہو۔‘‘‘ آپ ہم دونوں کے درمیان (والی جگہ پر) بیٹھ گئے حتی کہ میں نے آپ کے قدم مبارک کی ٹھڈک اپنے سینے پر محسوس کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم دونوں نے مجھ سے مانگا ہے میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ سکھلاؤں؟ جب تم دونوں اپنے اپنے بستروں میں جاؤ تو چونتیس بار اللہ اکبر کہو، تینتیس بار سبحان اللہ کہو اور تینتیس بار الحمدللہ کہو، یہ (عمل) تم دونوں کے لیے ایک خادم (مل جانے) سے بہتر ہے۔‘‘
یہ انسان کےلیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ وہ اللہ پر سچا ایمان رکھتا ہو اس کی صفات حسنہ کو پہچانتاہو، اس کی نعمتوں ،مہربانیوں اور اس کے لیے پایاں فضل وکرم کا احساس رکھتا ہو اور پورے عجزاورمحبت سے اس کو یاد کرتا ہو۔ اللہ نے انسان کو اس طرح بنایا کہ وہ ہرلمحہ اللہ کی مہربانیوں کامحتاج ہوتاہے ۔ اگر اس کا دل مردہ نہیں ہوا تو وہ بے اختیار اس کو یاد کرتا ہے ۔ یہ یاد اسے دل کامکمل اطمینان ،احساس تحفظ ،سچی خوشی اور بے حساب لذت وحلاوت عطا کرتی ہے ۔ اللہ کا بندہ اسے یاد کرے تو وہ اس سے بڑھ کر خوش ہوتاہے۔ بندہ اس کی یاد کےذریعے سےاس کے قریب آئے تووہ بندے سےبڑھ کر اس کےقریب آتاہے ۔
اللہ کے ننانوے خوبصورت نام ہیں۔ بندہ جس نام سے چاہے اللہ کو یاد کرسکتا ہے پکارسکتاہے ،دعا کرسکتاہے ، بندے کی زندگی کا کوئی پہلو اور اس کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کےلیے وہ اللہ کو پکارنا چاہے اوراس کی ضرورت کےمطابق اسے مناسب ترین نام نہ ملے۔ بیماریوں کےلیے وہ شافی ہے ،بھوکوں ننگوں کےلیے وہ رزاق ہے، گناہ گاروں کےلیے وہ غفار وغفور ہے ،محروموں کےلیے وہ ہے کمزوروں کےلیے وہ قومی ہے ،دھتکار ے ہوؤں کےلیے وہ دود ہے ،رحیم ہے وعلی ہذاالقیاس ۔ اسےپسند ہے کہ اس کابندہ اصرار کرکےاس سے مانگے ،پورے یقین کے ساتھ کہ اسے مل کر رہے گا ۔ اسے سخت ناپسند ہے کہ کوئی اس سےمایوس ہو۔ جس کےلیے زندگی ناقابل برداشت ہوجائے اورووہ موت مانگنے لگے تو اس بات کو اللہ کی رحمت سے وابستہ کرے۔ جو موت کے وقت اللہ سےملاقات کامتمنی ہو اللہ بھی اس سےملاقات کو پسند فرماتاہے ، وہ بندے کےاچھے گمان کو بھی رد نہیں کرنا چاہتا ۔ گناہوں پر پشیمانی ہوتو بھی دنیامیں سزاپانے کےبجائے دنیا اورآخرت دونوں میں اس سےاچھائی اوراس کی رحمت مانگنے کاحکم دیاگیاہے۔
اللہ وتنہائی میں بھی یاد کرنا چاہیے اور دوسرے مومنوں کے ساتھ مل کر بھی ۔تنہائی میں زیادہ یاد کرنے والے بازی لے جاتے ہیں۔ صبح وشام سوتے جاگتے ،دن کی مصروفیتوں اور رات کی تنہائیوں میں اسے یاد کرنے والا عظیم ترین انعام کاحق دار ہے جوقرب الہیٰ ہے ،لیکن حضرت ابوہریرہ روایت کرتےہیں کہ جب قرآن پڑھنا پڑھانا ہو، اللہ کے احسان یاد کرنے، سننے اور بیان کرتے ہوں اورمزید مانگنے ہوں تو اس کی یاد مجلسیں مناسب ہیں ،اللہ ان مجلسوں پر سکنیت نازل فرماتاہے ،شریک ہونےوالوں کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دیتا ہے فرشتے ان کےاردگرد گھیرا باندھ لیتے ہیں (حدیث :6853)اللہ ان یاد کرنے والوں کو ان کی مجلس سےبہت اونچی مجلس میں یاد کرتا ہے ۔ (حدیث:6855،6839)جوتنہائی میں بیٹھ کر اس کی یاد میں مستغرق ہوجاتا ہے اللہ اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہے ۔(حدیث:6805)یاد رہے کہ ذکر کے حوالے سے اوپر بیان کی جانے والی ساری روایت حضرت ابوہریرہ نےروایت کی ہیں۔ ان میں تنہااورمل کر دونوں طرح سے اللہ کی یاد کی تفصیلات موجود ہیں۔ ان میں کہیں بھی کوئی ایسا طریقہ مذکور نہیں جو آج کل کےاصحاب طریقت نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ یہ طریقے اپنے اپنے ایجاد کرنےوالوں ہی کےنام سےموسوم ہیں۔ طریقہ شاذلیہ،طریقہ نقشبندیہ ،طریقہ قادریہ وغیرہ ، یہ طریقے اچھی نیت سےتربیت کے حوالے سے اپنے اپنے تجربوں کی روشنی میں شروع کیے گئے ہوں گے لیکن یہ سب طریقے آپس میں ایک دوسرے سےبھی مختلف ہیں اورطریقہ نبویﷺ سےبھی مختلف ہیں۔
طریقہ نبویہ کےمطابق اولین اورناگزیرطریقہ ذکر نماز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي)’’میرےذکر کےلی نماز قائم کرو۔‘‘(طہٰ 14:20)اللہ نے خود رسالت مآب ﷺ کو مخاطب کرکےفرمایا(أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا)’’نماز قائم کر سورج ڈھلنے سےرات کے اندھیرے تک اور فجر کاقرآن (پڑھ) بلاشبہ فجر کا قرآن ہمیشہ سےحاضر ہونے کا وقت رہا ہے اور رات کے کچھ حصے میں، پھر اس کے ساتھ بیدار رہ ، اس حال میں کہ تیرے لیے اضافی ہے قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر فائز کرےگا۔‘‘(بنی اسرائیل78،79:17)ابتدائی دورمیں رات کی نماز کاخصوصی اہتما تھا آپﷺ کو حکم تھا (يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًاأَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا)’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات کو قیام کر مگرتھوڑا۔ آدھی رات (قیام کر) یا اس سےتھوڑا کم کر لے یا اس سےزیادہ کر لے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ ۔‘‘(المزمل73: 1۔4)گویا آپ کو آدھی رات یا اس سےکم یازیادہ قیام کا حکم تھا جس میں آپ کو ترتیل سےقرآن پڑھنا تھا ۔ قرآن خصوصا جب نماز میں توجہ سےپڑھا جائے تو سب سےاعلیٰ اورسب سے مکمل ذکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ’’الذکر‘‘کہا ہے ۔‘‘( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ)’’بلاشبہ ہم ہی نے یہ ذکر نازل کیاہے اور بلاشبہ ہم ضرور اس کی حفاظت کرنے والے ہیں(الحجر7:15)اس سے اللہ کی یاد، اس کی عبادت اورانسان کی تربیت کے تمام تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔ رسو ل اللہ ﷺ کو اللہ کی طرف جو مشن عطا ہوا،رات کے قیام کو اس کی تکمیل کی پوری تیاری اور اللہ کےپیغام کو انسانی قلوب واذہان تک پہنچانے کاکامیاب ذریعہ قرار دیاگیا (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا) ’’بلاشبہ رات کو اٹھنا (نفس کو )کچلنے میں زیادہ سخت اور بات کرنے میں زیادہ درستی والا ہے ۔‘‘(المزمل 6:73)
رسول اللہﷺ نےنماز کے اذکار صبح وشام کے اذکار سونے جاگنے کے اذکار کھانے پینے کے اذکار ،غرض بہ مرحلے اورہرکام کےوقت کے اذکار سکھائے اورمسلمان کی پوری زندگی کو ذکر الہیٰ سےوابستہ کردیا۔ یہ طریقہ نبویہ ہے جوپوری انسانی زندگی کومنور کردیتاہے ۔ آپﷺ کے بتائے ہوئے اذکار اور دعائیں ایسی ہیں کہ ان سےبہتر دعاؤں کاتصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ آج کل کےاصحاب طریقت میں ان چیزوں کاکوئی خص اہتمام نظر نہیں آتا ۔ قرآن مجید کازیادہ سےزیادہ حصہ یاد کرنے اس کو اچھی طرح سمجھنے اور رات کاقیام کرکے اس میں توجہ اورترتیل کے ساتھ پڑھنے کی تلقین طریقت کاحصہ نظر نہیں آتا ۔ رسول اللہﷺ کےاذکار اورآپ کی تلقین کردہ دعائیں یاد کرنے اوران کے مفہوم کو ذہن نشین کرانے کابھی کوئی اہتمام نہیں۔ مرشدین طریقت خود بھی رسول اللہ ﷺ کےمعمولات کے اتباع حتی کہ آپ کے سکھائے اذکار اوردعاؤں سےبے بہرہ نظر آتے ہیں۔ تزکیہ قلب کے لیے قرآن نے جو طریقہ بتایا ہے وہ فرض زکاۃ اورکثرت سےصدقات کےذریعے سےمال خرچ کرنا ہے تاکہ دل سےمال کی محبت ختم ہو جائے اللہ کافرمان ہے (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ) ’’ان کے مالوں سے صدقہ لیں اس کے ساتھ آپ انہیں پاک کریں گے اورانہیں صاف کریں گے ۔‘‘(التوبہ 103:9) اور ایک مثالی مومن کا تعارف کرواتے ہوئے کہا گیا(الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى) ’’وہ جو اپنا مال (اس لیے )دیتا ہے کہ پاک ہوجائے ۔‘‘(اللیل 18:92) لیکن آج کل کے زیادہ تر اصحاب طریقت تزکیہ حاصل کرنے بجائے الٹا فتوحات کی صورت میں لوگوں کے مال کامیل کچیل اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے نظرآتےہیں ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح کےاس حصے میں صحیح احادیث کےذریعے سےطریقہ نبویہ کےخدوخال واضح کیےہیں۔ اس میں اذکار ہیں ان کےفضائل ہیں ، دعائیں ہیں اورا ن کے آداب ہیں۔
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے ابن ابی لیلی سے سنا، انہوں نے کہا: ہمیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو چکی پیسنے سے جو زحمت برداشت کرنی پڑی اس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں تکلیف ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے۔ آپ کی طرف گئیں، لیکن آپ ﷺ کو (گھر میں) نہ پایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ملیں اور انہیں (اپنی تکلیف کے بارے میں) بتایا۔ جب نبی ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ کو ان (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا) کے اپنے پاس آنے کے بارے میں بتایا تو رسول اللہ ﷺ ہمارے ہان تشریف لائے ۔۔ اس وقت ہم اپنے اپنے بستروں میں جا چکے تھے، ہم کھڑے ہونے لگے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’دونوں اپنی اپنی جگہ پر رہو۔‘‘‘ آپ ہم دونوں کے درمیان (والی جگہ پر) بیٹھ گئے حتی کہ میں نے آپ کے قدم مبارک کی ٹھڈک اپنے سینے پر محسوس کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم دونوں نے مجھ سے مانگا ہے میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ سکھلاؤں؟ جب تم دونوں اپنے اپنے بستروں میں جاؤ تو چونتیس بار اللہ اکبر کہو، تینتیس بار سبحان اللہ کہو اور تینتیس بار الحمدللہ کہو، یہ (عمل) تم دونوں کے لیے ایک خادم (مل جانے) سے بہتر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چکی پیسنے سے جو ہاتھوں کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی تھی۔ (ہاتھوں میں جو نشان پڑگئے) اس کی شکایت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تھے چنانچہ وہ گئیں ۔ لیکن آپ مل نہ سکے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مل کر انہیں اپنی آمد کا مقصد بتایا تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو آپ کے پاس حضرت فاطمہ کی آمد کا تذکرہ کیا چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں گئے ،جبکہ وہ اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ چنانچہ وہ اٹھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی جگہ پر رہو۔‘‘ اور آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتی کہ میں نے اپنے سینہ پر آپ کے قدموں کی ٹھنڈک محسوس کی، پھر آپ نے فرمایا: ’’جو تم دونوں نے درخواست کی ہے۔ کیا میں تم کو اس سے بہتر چیز نہ سکھاؤں ؟ جب تم اپنے بستروں پر جاؤ تو چونتیس (34) دفعہ اللہ اکبر کہو، تینتیس (33) دفعہ اس کی تسبیح بیان کرو اور تینتیس(33) بار اس کی حمد بیان کرو۔ سویہ عمل تمھارے لیے خادم لینے سے بہتر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے حافظ ابن تیمیہ رحمہُ اللہُ نے یہ استنباط کیا ہے، سوتے وقت اس وظیفہ کی پابندی سے تکان دور ہوتی ہے اور بقول حافظ ابن حجر رحمہُ اللہُ اس وظیفہ کی پابندی کام کاج کی کثرت سے انسان ضرر اور نقصان سے محفوظ ہو جاتا ہے اور محنت و مشقت سے گرانی پیدا نہیں ہوتی اور آخرت میں کام آنے والے عمل زیادہ سود مند ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It is reported on the authority of Ali that Fatima had corns in her hand because of working at the hand-mill. There had fallen to the lot of Allah's Apostle (ﷺ) some prisoners of war. She (Fatima) came to the Holy Prophet (ﷺ) but she did not find him (in the house). She met A'isha and informed her (about her hardship). When Allah's Apostle (ﷺ) came, she ( A'isha) informed him about the visit of Fatima. Allah's Messenger (ﷺ) came to them (Fatima and her family). They had gone to their beds. 'Ali further (reported): We tried to stand up (as a mark of respect) but Allah's Messenger (ﷺ) said: Keep to your beds, and he sat amongst us and I felt coldness of his feet upon my chest. He then said: May I not direct you to something better than what you have asked for? When you go to your bed, you should recite Takbir (Allah-o-Akbar) thirty-four times and Tasbih (Subhdn Allah) thirty-three times and Tahmid (al-Hamdu li-Allah) thirty-three times, and that is better than the servant for you.