Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: Rulings on what was licked by a dog)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
280.01.
(خالد) بن حارث، یحییٰ بن سعید اور محمد بن جعفر، سب نے شعبہ سے اسی سند سے اس (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی، البتہ یحییٰ بن سعید کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپﷺ نے بکریوں کی حفاظت، شکار اور کھیتی کی رکھوالی کے لیے کتا رکھنے کی ا جازت دی۔ یحییٰ کے سوا زرع (کھیتی) کا ذکر کسی روایت میں نہیں۔
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
(خالد) بن حارث، یحییٰ بن سعید اور محمد بن جعفر، سب نے شعبہ سے اسی سند سے اس (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی، البتہ یحییٰ بن سعید کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپﷺ نے بکریوں کی حفاظت، شکار اور کھیتی کی رکھوالی کے لیے کتا رکھنے کی ا جازت دی۔ یحییٰ کے سوا زرع (کھیتی) کا ذکر کسی روایت میں نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب مذکورہ بالا روایت مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔ یحییٰ بن سعید کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپﷺ نے بکریوں کی حفاظت، شکار اور کھیتی کی رکھوالی کے لیے کتا رکھنے کی اجازت دی، یحییٰ کے سوا زرع (کھیتی) کا ذکر کسی نے نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کتا برتن میں منہ ڈال کر کوئی چیز چاٹ لے، پی لے تو اس کو گرا دیا جائے گا، برتن کو پہلی دفعہ مٹی سے مانجھا جائے گا اور پھر سات دفعہ پانی سے دھویا جائے گا۔ (وَعَفِّرُوهُ الثَّامِنَةَ بِالتُّرَابِ) کا مقصد ہے کہ مٹی سے صفائی کو شمار کرنے سے تعداد آٹھ دفعہ ہو جائے گی، یہ مقصد نہیں ہے کہ پہلے سات دفعہ پانی سے دھو کر، آٹھویں بار مٹی استعمال کرو کیونکہ اس طرح تو برتن کو بعد میں پھر پانی سے دھونا ہو گا اور تعداد آٹھ سے بڑھ جائے گی اور یہ معنی کہ آغاز مٹی سے کرو، کے بھی منافی ہو گا۔ اور جمہور ائمہ کے نزدیک برتن سات دفعہ دھونا ضروری ہے اور یہ حکم صرف کتے کے جوٹھے کے لیے ہے کیونکہ اس کے جراثیم، انتہائی مہلک ہوتے ہیں صرف امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تین دفعہ دھونے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل کو دلیل بناتے ہیں حالانکہ مرفوع روایت کی موجودگی میں کسی صحابی کا فعل دلیل نہیں بن سکتا۔ نیز حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سات دفعہ دھونے کا حکم بھی ثابت ہے لہٰذا ان کا وہی فعل وقول راجح ہو گا جو ان کی مرفوع روایت کے مطابق ہے اور کتا جمہور کے نزدیک نجس ہے اس لیے اس کا جوٹھا ناپاک ہے لوگوں کی سہولت اور آسانی کے لیے حاجت مند لوگوں کو کتا رکھنے کی اجازت دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پاک ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول طہارت کا نقل کیا جاتا ہے کہ سات دفعہ دھونے کا حکم تعبدی ہے، جس کی حکمت ہماری سمجھ سے بالا ہے، ویسے کتا پاک ہے لیکن بعض مالکی کتے کو نجس العین قرار دیتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A hadith like this has been narrated from Shu'bah with the same chain of transmitters except for the fact that in the hadith transmitted by Yahya those words are: "He (the Holy Prophet) gave concession in the case of the dog for looking after the herd, for hunting and for watching the cultivated land," and there is no mention of this addition (i. e. concession in case of watching the cultivated lands) except in the hadith transmitted by Yahya.