صحیح مسلم
47. کتاب: حسن سلوک،صلہ رحمی اور ادب
2. باب: والدین کے ساتھ حسن سلوک نفلی نماز اور دوسرے نفلی اعمال پر مقدم ہے
صحيح مسلم
47. كتاب البر والصلة والآداب
2. بَابُ تَقْدِيمِ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى التَّطَوُّعِ بِالصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا
Muslim
47. The Book of Virtue, Enjoining Good Manners, and Joining of the Ties of Kinship
2. Chapter: Being Dutiful To One's Parents Takes Precedence Over Voluntary Prayer, Etc
باب: والدین کے ساتھ حسن سلوک نفلی نماز اور دوسرے نفلی اعمال پر مقدم ہے
)
Muslim:
The Book of Virtue, Enjoining Good Manners, and Joining of the Ties of Kinship
(Chapter: Being Dutiful To One's Parents Takes Precedence Over Voluntary Prayer, Etc)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
6508.
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں حمید بن ہلال نے ابورافع سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: جریج نوکیلی چھت والی چھوٹی سی عبادت گاہ میں عبادت کر رہا تھا کہ اس کی ماں آئی۔ حمید نے کہا: ابو رافع نے ہمیں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح واضح کر کے دکھایا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ان کے سامنے واضح کیا تھا کہ جب اس کی ماں نے اسے بلایا تو اس نے کس طرح اپنا ہاتھ اپنے ابروؤں پر رکھا تھا اور پھر اسے بلانے کے لیے اپنا سر اوپر کی طرف کیا تھا تو آواز دی: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کر۔ ماں نے عین اسی وقت ان (جریج) کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا: میرے اللہ! (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے؟ تو اس نے اپنی نماز کو ترجیح دی۔ وہ واپس چلی گئیں، پھر دوسری بار آئیں اور بلایا: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کرو۔ اس نے کہا: اے اللہ! میری ماں اور میری نماز ہے، انہوں نے نماز کو ترجیح دی، تو ماں نے دعا کی: اے اللہ! یہ جریج ہے، یہ میرا بیٹا ہے، میں نے اس سے بات کی ہے، اس نے میرے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یا اللہ! تو اسے بدکار عورتوں کا منہ دکھانے سے پہلے موت نہ دینا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ اس کو یہ بددعا دیتیں کہ وہ فتنے میں مبتلا ہو جائے تو وہ ہو جاتا۔‘‘ فرمایا: بھیڑوں کا ایک چرواہا (بھی) اس کی عبادت گاہ کی پناہ لیا کرتا تھا (اس کے سائے میں آ بیٹھتا تھا۔) فرمایا: بستی سے ایک عورت نکلی، چرواہے نے اس کے ساتھ بدکاری کی، وہ حاملہ ہو گئی اور ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس عورت سے پوچھا گیا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ اس عبادت گاہ والے شخص سے (ہوا) ہے۔ کہا: تو وہ (بستی والے) لوگ اپنے پھاؤڑے اور کدال لے کر آ گئے، انہوں نے جریج کو بلایا، انہوں نے اسی وقت ان کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے انہوں نے ان لوگوں سے یہ بات نہ کی۔ لوگوں نے ان کی عبادت گاہ گرانی شروع کر دی، جب انہوں نے یہ دیکھا تو اتر کر ان کی طرف آئے۔ لوگوں نے ان سے کہا: اس عورت سے پوچھو (کیا معاملہ ہے)، فرمایا: تو وہ مسکرائے، بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا، پھر پوچھا: تمہارا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ جب انہوں نے اس (شیر خوار) سے یہ سنا تو کہنے لگے: ہم نے آپ کی عبادت گاہ کا جو حصہ گرایا ہے اسے سونے اور چاندی سے (دوبارہ) بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا: نہیں، لیکن اسی طرح مٹی سے بنا دو جس طرح پہلے تھی، پھر وہ اس کے اوپر (عبادت گاہ میں) چلے گئے۔
رسالت مآبﷺ نے’’برّ‘‘کےبارےمیں فرمایا کہ یہ حسن سلوک کانام ہے ۔حسن کادائرہ والدین سےشروع ہوکر عام مسلمانوں بلکہ جانوروں تک وسیع ہے ۔حسن سلوک کےسب سےزیادہ مستحق والدین ہیں، اس لیے جب خالی برکانام لیا جائے تواس سے عموما والدین کےساتھ حسن سلوک مراد لیا جاتا ہے ، اگرچہ حقیقت میں اس صفت سےمتصف انسان درجہ بدرجہ سب کے ساتھ حسن سلوک کرنےوالا ہوتاہے ۔
’’صلہ‘‘سےمراد صلہ رحمی ہے ۔ بِرّکےساتھ صلہ کاذکر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت اجاگر کرنے کےلیے کیا جاتا ہے ۔بعض حضرات نے اس کتاب کاعنوان ’’کتاب الادب ‘‘بھی تجویز کیاہے ۔ اس کاسبب یہ ہےکہ اس کتاب میں حسن معاشرت ہی کےآداب بیان ہوئے ہیں ۔
امام مسلم نےکتاب کا آغاز والدہ کے ساتھ حسن سلوک سےکیا ہے کیونکہ اسلام میں وہ حسن سلوک کی سب سےزیادہ حقدار ہے ۔ اس کےبعد والد ہے ۔والدین کے ساتھ حسن سلوک جہاد سے بھی مقدم ہے بلکہ رسول اللہﷺ کے الفاظ ’’ففيهمافجاهد ‘‘’’ان دونوں (کی خدمت بجالانے ) میں جہاد کرو ‘‘(حدیث :6504) سےواضح ہوتاہے کہ خدمت والدین جہاد سےبھی مقدم ہے ۔
والدین کےساتھ حسن سلوک کی اہمیت اس قدر ہے کہ ان کے بلانے پر نفل نماز تک توڑدینا ضروری ہے ۔ اللہ کی رضا کےلیے والدین کو راضی رکھنے کا اجر اتنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس سےمحروم رہ جانے والے کو سب سےزیادہ بد قسمت اورعزت سے محروم انسان قرار دیا ہے ۔ والدین کےبعد ان کےدوستوں کے ساتھ حسن سلوک بھی ’’أبرالبر‘‘(سب سےاونچے درجے کاحسن سلوک )قرار دیا گیا ہے ۔
اس کے بعد رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک آتا ہے۔قطع رحمی تباہ کرنے والا جرم ہے۔ اس کی بنا پر انسان کا اپنے رب سے بھی تعلق قطع ہوجاتا ہے ۔صلہ رحمی رزق میں کشادگی کاذریعہ بھی ہے۔ عام طورپر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگروہ قطع رحمی کر رہا ہے تو اب وہ بھی جواباقطع تعلق پرمعذور ہوگا لیکن رسول اللہﷺ نےواضح فرمایا ہے کہ قطع رحمی کامقابلہ صلہ رحمی ہی کےذریعے سےہو سکتا ہے۔ جوشخص قطع رحمی کے جواب میں صلہ رحمی کرتا ہے وہ دوسرے فریق کو تپتی ہوئی راکھ کاسفوف کھلا کر ان کاعلاج کر رہا ہے اورجب تک یہ صلہ رحمی کرتا رہتا ہے اسے اللہ کی طرف سے ایک مدد گار میسر رہتا ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، اس کے ہوتے ہوئے کوئی اس شخص کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اس کے بعد عام مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کابیان ہے ۔ اس کی بنیاد اس پر ہے کہ مسلمان باہمی حسد،بغض ،اعراض اورقطع تعلق سے پرہیز کرتے ہوئے اللہ کےساتھ بندگی کےرشتے کی بنا پر ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیں ۔ رسول اللہﷺ تین دن سےزیادہ ایک مسلمان کی دوسرے سےناراضی کو حرام قراردیتے ہیں۔ آپ کے فرمان کےمطابق افضل وہی ہے جوصلح میں ابتداء کرتاہے ۔آپ نے اس رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے اس بات کی تعلیم دی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کی برائیاں نہ ڈھونڈھیں ، تجسس سےکام نہ لیں ،نہ دوسرے مسلمان پرظلم کریں، نہ اسے ظلم کےسپرد کریں اورنہ اسے خود سےکم تر سمجھیں۔ ہر مسلمان کاخون انتہائی قابل احترام ہے ۔ آپﷺ نے ا سی کو تقویٰ قرار دیا ہے اورواضح فرمایا ہے کہ تقویٰ کاتعلق دل سے ہے ۔ دل کی نیک جذبات سےمعمور ہے توانسان متقی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شکل وصورت اوراس کے مال کو نہیں دیکھتا جس پرعموما اتراتے ہیں وہ دلوں اوراعمال کو دیکھتا ہے اورپاکیزہ دل رکھنے والوں اورنیک اعمال کرنےوالوں کو محبوب رکھتا ہے ۔
مسلمان کی باہمی عداوت بخشش میں رکاوٹ بن جاتی ہے ،اوراللہ کے لیے باہم محبت عظیم ترین انعام کامستحق بنا دیتی ہے ۔ اس سےدنیا میں بھی عزت اورآرام میسر آتا ہے اورآخرت میں بھی اللہ کےعرش کاسایہ نصیب ہوتا ہے ۔
دل کے اچھے جذبات کاتقاضا ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کی عافیت اورصحت وسلامتی کاطلب گار ہو۔ بیماری اور دوسری تکالیف انہی مومنوں کے حصے میں آتی ہیں جو اللہ کےبہت قریب ہوتے ہیں ۔ ہرمشکل پرمومن کو اجر ملتا ہے ۔ ایک بیماری مسلمان کی عیادت بھی اللہ کے قریب کاذریعہ بن جاتی ہے ۔
دوسری طرف کسی مسلمان پر ظلم انسان کےمقدرکو تاریک کردیتا ہے ۔ظلم ظلمات (اندھیروں )کےمترادف ہے ۔ ایک مسلمان جانتا ہےکہ اسےکسی پرظلم کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے اپنے رب کے خزانوں سےحاصل کرسکتا ہے ۔ مال یادنیا کی کسی نعمت کےحوالے سے اسے خوف اورعدم اطمینان کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اگر وہ بہت زیادہ برکات چاہتاہے تو مسلمان بھائیوں پر خرچ کرے، عافیت چاہتا ہے تومسلمان بھائیوں کی تکلیفیں دور کرے ۔ ان کو دکھ دینے سے بچے کیونکہ ظلم وزیادتی کرنے سے اس کی اپنی نیکیاں دوسروں کو ملنے لگیں گی اور اس کا دامن خالی رہ جائے گا ۔ مسلمان دوسرے مسلمان کی ہر صورت میں مدد کرے ، اسے ظلم سے بچائے ،اگر وہ ظالم ہے تو اسے ظلم سے روکے ۔
رحم دلی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اللہ بے پناہ رحم کرنے والا ہے ۔ نرمی اوررحم دلی کو پسند فرماتا ہے ۔رحم دلی پر اتنا کچھ عطا کرتا ہے کہ کسی اور بات پر اتنا عطا نہیں کرتا ۔ مسلمان کی رحم دلی کادائرہ انسانوں سے آگے تمام جانداروں تک وسیع ہوتا ہے ۔ وہ غصے میں کسی جانور پر بھی لعنت نہیں کرتا۔ مخلوقات میں سب سےزیادہ رحمدل رسولﷺ ہیں ۔ آپ نے اپنی بددعا اورکسی مسلمان کے حق میں استعمال کیے جانے والے سخت الفاظ کو بھی اللہ سے ان کے حق میں دعا بنا دینے کی التجا کی ہے ۔
مسلمانوں کے ساتھ نرمی اورباہمی مودت کو فروغ دینا اتنا اہم ہے کہ اس کےلیے جوباتیں بظاہرخلاف واقع نظرآتی ہیں لیکن دومسلمانوں کو ایک دوسرے کےقریب کرسکتی ہیں، ان کی اجازت ہے ۔ اوربرترین شخص اسےقراردیاگیا جومختلف چہروں کے ساتھ مختلف لوگوں کو ملتا ہے اور ان کے درمیان نفرت کابیج بوتا ہے ۔ اگر کسی مسلمان میں کوئی کمزوری موجود ہے تو اس کاتذکرہ زبان پر لانا بھی ممنوع ہے ،یہی غیبت ہے ۔ سچائی باہمی محبت کو فروغ دیتی ہے اورجھوٹ نفرت پھیلاتا ہے ۔ا گرمسلمانوں کےعیب چھپاتے ہوئے ان کی اچھائیوں کےبارےمیں سچ بولا جائے تومعاشرہ امن کاگہوارہ بن سکتا ہے ۔ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو غصہ قابو میں رکھنے کی تعلیم دی ہے کیونکہ غصہ باہمی تعلقات کو تباہ کرتا ہے ۔ غصے پر قابو پانا اگرچہ مشکل ہوتاہے کیونکہ یہ انسان کےمزاج میں موجود ہے ،لیکن اس کو قابو میں رکھنا انسان کوطاقت وربناتا ہے ،اسے مخلوق کامحبوب بناتا ہے ۔ اگرتادیب کےلیے سزا دینانا گزیر ہو جائے تو بھی دوسرے کی عزت نفس کو بچانا ضروری ہے ۔ کسی کو منہ پر مارنا ممنوع ہے ۔ کسی کو غیر ضروری طور پر اذیت میں مبتلا کرنا اللہ کےعذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ کسی مسلمان کی طرف ہتھیار سے اشارہ تک کرنے کی اجازت نہیں ۔ ہتھیار ہاتھ میں ہوتو اس طرح کہ اس کانشانہ بنانے والاحصہ اپنے ہاتھ میں ہو، کسی دوسرے کی طرف اٹھا ہوانہ ہو۔ اذیت پہنچانےوالی چیز کو راستے سےدور کرنا بھی نجات کاسبب بن سکتا ہے۔
کبر،اپنی نیکی پرعجب دوسروں کےبارےمیں ایسے تبصرے جودوسروں کو نجات سےمحروم کرنے کے حوالے سےکیےجائیں یاایسے معمولی الفاظ بھی ،جن میں تمام انسانوں کی ہلاکت کاتذکرہ ہو،ممنوع ہیں۔
ہمسایے کے ساتھ خصوصی حسن سلوک سب سے بشاشت کے ساتھ ملنا، دوسروں کاحق دلانے یاجائز ضرورت پوری کرنے کےلیے سفارش کرنا، سب مسلمانوں کی صفات میں شامل ہیں ۔ اوراولاد میں سے نسبتا کمزور خصوصا بیٹیوں سےحسن سلوک بہت بڑی نیکی ہے ۔ والدین کےدلوں میں اللہ نے اولاد کے لیے جومحبت اورشفقت رکھی ہے وہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس حوالے سے کسی مومن کو صدمہ پہنچتا ہے ، اس کےبچے اس سے لے لیے جاتے ہیں تو اسے اس پر صبر کرنے کے بدلے میں جنت عطا کی جاتی ہے ۔
یہ حسن معاشرت کےآداب ہیں ۔ جوان کو اپنا لیتا ہے وہ اللہ کامحبوب بن جاتا ہے ۔جواللہ کامحبوب بن جائے وہ فرشتوں اورتمام کائنات کو پیارا ہوتاہے ، اچھے لوگوں کی روحیں بھی اچھائی کی بناپر ایک دوسرے سےمحبت کرتی ہیں ۔ اللہ اور اس کی مخلوق سے محبت رکھنے میں اتنی قوت ہے کہ انسان کو آخرت میں بھی اچھے لوگوں سے دلی محبت کی بنا پر انہی کا ساتھ نصیب ہوگا ۔ جس کے حسن اخلاق کی لوگ دنیا میں تعریف کریں، اللہ اس تعریف کو اس کے لیے آخرت کے انعامات کی پیشگی خوش خبری قرار دیتا ہے ۔
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں حمید بن ہلال نے ابورافع سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: جریج نوکیلی چھت والی چھوٹی سی عبادت گاہ میں عبادت کر رہا تھا کہ اس کی ماں آئی۔ حمید نے کہا: ابو رافع نے ہمیں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح واضح کر کے دکھایا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ان کے سامنے واضح کیا تھا کہ جب اس کی ماں نے اسے بلایا تو اس نے کس طرح اپنا ہاتھ اپنے ابروؤں پر رکھا تھا اور پھر اسے بلانے کے لیے اپنا سر اوپر کی طرف کیا تھا تو آواز دی: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کر۔ ماں نے عین اسی وقت ان (جریج) کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا: میرے اللہ! (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے؟ تو اس نے اپنی نماز کو ترجیح دی۔ وہ واپس چلی گئیں، پھر دوسری بار آئیں اور بلایا: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کرو۔ اس نے کہا: اے اللہ! میری ماں اور میری نماز ہے، انہوں نے نماز کو ترجیح دی، تو ماں نے دعا کی: اے اللہ! یہ جریج ہے، یہ میرا بیٹا ہے، میں نے اس سے بات کی ہے، اس نے میرے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یا اللہ! تو اسے بدکار عورتوں کا منہ دکھانے سے پہلے موت نہ دینا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ اس کو یہ بددعا دیتیں کہ وہ فتنے میں مبتلا ہو جائے تو وہ ہو جاتا۔‘‘ فرمایا: بھیڑوں کا ایک چرواہا (بھی) اس کی عبادت گاہ کی پناہ لیا کرتا تھا (اس کے سائے میں آ بیٹھتا تھا۔) فرمایا: بستی سے ایک عورت نکلی، چرواہے نے اس کے ساتھ بدکاری کی، وہ حاملہ ہو گئی اور ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس عورت سے پوچھا گیا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ اس عبادت گاہ والے شخص سے (ہوا) ہے۔ کہا: تو وہ (بستی والے) لوگ اپنے پھاؤڑے اور کدال لے کر آ گئے، انہوں نے جریج کو بلایا، انہوں نے اسی وقت ان کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے انہوں نے ان لوگوں سے یہ بات نہ کی۔ لوگوں نے ان کی عبادت گاہ گرانی شروع کر دی، جب انہوں نے یہ دیکھا تو اتر کر ان کی طرف آئے۔ لوگوں نے ان سے کہا: اس عورت سے پوچھو (کیا معاملہ ہے)، فرمایا: تو وہ مسکرائے، بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا، پھر پوچھا: تمہارا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ جب انہوں نے اس (شیر خوار) سے یہ سنا تو کہنے لگے: ہم نے آپ کی عبادت گاہ کا جو حصہ گرایا ہے اسے سونے اور چاندی سے (دوبارہ) بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا: نہیں، لیکن اسی طرح مٹی سے بنا دو جس طرح پہلے تھی، پھر وہ اس کے اوپر (عبادت گاہ میں) چلے گئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جریج اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتے تھے، چنانچہ اس کی ماں آئی، حمید کہتے ہیں، حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ماں کی جو کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی وہی کیفیت وصورت ابورافع نے ہمیں بتائی، اس کی ماں نے جب اسے بلایا تو کیسے اپنی ہتھیلی، اپنے ابرو پررکھی تھی، پھر اسے بلانے کے لیے،اس کی طرف اپناسر اٹھایا اورآواز دی، اے جریج! میں تیری ماں ہوں، مجھ سے گفتگو کرو تو اس نے اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، جریج نے دل میں کہا، اےاللہ! میری نماز اورمیری ماں (کس کو ترجیح دوں؟) پھر اس نے نماز کو ترجیح دی تو وہ واپس چلی گئی، پھر دوبارہ آئی اور آواز دی اے جریج! میں تیری ماں ہوں، مجھ سے ہم کلام ہو، اس نے دل میں کہا، اے اللہ! میری ماں اور میری نماز تو اس نے نماز کا انتخاب کیا تو اس کی ماں نے کہا، اے اللہ! یہ جریج ہے اور یہ میرا بیٹا ہے اور میں نے اس سے ہم کلام ہونا چاہا ہے، سو اس نے مجھ سے گفتگو کرنے سے انکار کیا ہے، اے اللہ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا، جب تک تو اسے بدکار عورتوں کا نظارہ نہ کرا دے، آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ اس کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونے کی دعاکرتی تووہ فتنہ میں مبتلاکر دیا جاتا۔‘‘ آپﷺ نےفرمایا، ایک دنبوں کا چرواہا تھا، جو اس کے دیرکے پاس ٹھہرتا تھا، چنانچہ ایک عورت بستی سے نکلی اور چرواہے نے اس سے بدکاری کی، جس سے اسے حمل ٹھہر گیا اور اس نے ایک بچہ جنا، اس سے پوچھا گیا، یہ کس کی حرکت ہے؟ اس نے کہا، اس دیر والے کی تو لوگ اپنے کلہاڑے اورکسیاں لے کر آگئے اور اسے آواز دی تو انہوں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، اس لیے اس نے ان کو جواب نہ دیا تو لوگ اس کا دیر یعنی عبادت خانہ گرانے لگے تو جب اس نے یہ صورت حال دیکھی، ان کے پاس اترآیا، لوگوں نے اسے کہا، اس عورت سے پوچھو! تو وہ مسکرایا، پھر بچے کے سرپر ہاتھ پھیرا اور پوچھا تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا، میرا باپ، دنبوں کا چرواہا ہے تو جب لوگوں نے بچے سے یہ سنا، کہنے لگے، ہم نے تیرا جو معبد گرایا ہے، ہم اسے سونے اور چاندی سے بنا دیتے ہیں، اس نے کہا، نہیں، لیکن اسے پہلے ہی کی طرح مٹی کا بنا دو، پھر وہ اس میں چڑھ گیا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) صومعه: مخروطی شکل کا چبارہ یا منارا۔ (2) مومسات: مفرد مومسة ہے، بدکار اور زانیہ عورت، فؤؤس،فاس کی جمع ہے، کدال مراد ہے، جس سے زمین کھودی جاتی ہے۔ (3) مساحي: مسحاة کی جمع ہے، جس آلہ سے زمین سے مٹی اکٹھی کی جاتی ہے، پھاوڑا، کسی۔ (4) ابي راعي الضان: میرا باپ بھیڑوں کا چرواہا ہے، چونکہ وہ اس کے نطفہ سے پیدا ہوا تھا، اس لیے اس کو باپ کا نام دیا گیا اور اس کا نام بابوس تھا۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اگر انسان نماز پڑھ رہا ہو اور اس کی والدہ کو اس کا علم نہ ہو سکے اور جواب نہ دینے کی صورت میں اس کی مامتا کو ٹھیس پہنچتی ہو، یعنی جواب نہ دینا، اس کے لیے اذیت اور ناگواری کا باعث ہو تو نماز توڑ کر اس کو جواب دینا چاہیے، کیونکہ نماز اگر نفل ہے تو اس کو دوبارہ پڑھا جا سکتا ہے، اور اگر فرض ہے تو اس کی قضائی ممکن ہے اور پہلی امتوں میں تو نماز کے دوران ضروری گفتگو کرنا جائز تھا، جیسا کہ اسلام میں بھی آغاز میں جائز رہا ہے، اس لیے اسے جواب دینا چاہیے تھا، اس نے تشدد اور انتہا پسندی سے کام لیا، اس لیے ماں کی بددعا قبول ہو گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported that Juraij was one who was devoted to (prayer) in the temple. His mother came to him. Humaid said that Abu Rafi' demonstrated before us like the demonstration made by abu Hurairah to whom Allah's Messenger (ﷺ) had demonstrated as his mother called him placing her palms upon the eyebrows and lifting her head for calling him and said: Juraij, it is your mother, so talk to her. She found him at that time absorbed in prayer, so he said (to himself): O Lord, my mother (is calling me) (whereas I am absorbed) in my prayer. He opted for prayer. She (his mother) went back, then came again for the second time and said: O Juraij, it is your mother (calling you), so talk to me. He said: O Allah. there is my mother also and my prayer, and he opted for prayer. She said: O Allah, this Juraij is my son. I pray to talk to him but he refuses to talk to me. O Allah, don't bring death to him unless he has seen the prostitutes, and had she invoked the curse upon him (from the heart of her heart) he would have been involved in some turmoil. There was a shepherd living near by his temple (the temple where Juraij was engaged in prayer). It so happened that a woman of that village came there and that shepherd committed fornication with her and she became pregnant and gave birth to a child. It was said to her: Whose child is this? She said: He is the child of one who is living in this temple. So there came persons with hatchets and spades. They called Juraij. He was absorbed in prayer and he did not talk to them and they were about to demolish that temple that he saw them and then came to them and they said: Ask her (this woman) what she says. He smiled and then touched the head of the child and said: Who is your father? He (the child) said: My father is the shepherd of the sheep, and when they heard this, they said: We are prepared to rebuild with gold and silver what we have demolished from your temple. He said: No, rebuild it with clay as it had been before. He then went up (to his room and absorbed himself in prayer).