تشریح:
(1) امام ضحاک ؒ وغیرہ کا موقف ہے کہ دوران سفر میں نماز وتر پڑھنا مشروع نہیں۔ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام نووی ؒ نے اس موقف کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور دوران سفر میں نماز وتر پڑھنے کی مشروعیت ثابت کی ہے۔ دوران سفر وتر نہ پڑھنے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ کا یہ قول پیش کیا جاتا ہے کہ اگر مجھے دوران سفر نفل پڑھنے ہوتے تو میں فرض نماز پوری ادا کرتا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1594 (694)) لیکن اس سے فرض نماز سے پہلے اور بعد والی سنتیں مراد ہیں، وتر مراد نہیں، جس کی وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ سفر کیا، وہ ظہر اور عصر کی صرف دو دو رکعت پڑھتے تھے، ان سے پہلے اور بعد کچھ نہ ادا کرتے تھے۔ اگر میں نے انہیں پڑھنا ہوتا تو فرض نماز ہی پوری ادا کر لیتا۔ (جامع الترمذي، السفر، حدیث:544، فتح الباري:630/2)
(2) دراصل اس حدیث سے امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نماز وتر فرض نہیں۔ اگر فرض ہوتی تو اسے بھی دیگر فرض نمازوں کی طرح سواری پر نہ پڑھا جاتا، کیونکہ سواری پر فرض نماز نہ پڑھنے کی حدیث میں صراحت ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ نماز وتر فرض نہیں۔ واللہ أعلم۔