تشریح:
(1) مذکورہ حدیث دو حصوں پر مشتمل ہے جس حصے میں کفار کے خلاف بددعا کرنے کا ذکر ہے۔ یہ حصہ ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اور قبیلۂ غفار اور قبیلۂ اسلم کے متعلق حصہ ہجرت کے بعد کا ہے۔ ان دونوں واقعات کو یکجا کر کے بیان کر دیا گیا ہے۔ شاید امام بخاری ؒ نے اسی طرح اپنے شیوخ سے سنا ہو۔ امام بخاری ؒ کا آخری حصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف ان مشرکین کے لیے بددعا کرنی چاہیے جن سے صلح کا معاہدہ نہ ہو۔ ان دونوں کا ذکر اس لیے ہوا کہ قبیلۂ غفار تو مسلمان ہو چکا تھا اور قبیلۂ اسلم نے آپ کے ساتھ صلح کر لی تھی۔ ایک روایت میں قبیلۂ عصیہ کا ذکر ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے۔
(2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو کتاب الاستسقاء میں "استدلال بالأضداد" کی غرض سے بیان کیا ہے کہ جب بددعا کرنا جائز ہے جو شانِ رحمت کے خلاف ہے تو دعا کرنا تو بالاولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے مقصود تنبیہ کرنا ہے کہ جب اہل ایمان کے لیے بارانِ رحمت کی دعا کرنا مشروع ہے تو اہل کفروشرک کے لیے قحط سالی کی بددعا کرنا بھی جائز ہے، تاکہ ان کے دلوں میں کچھ نرمی پیدا ہو جائے۔ (فتح الباري:636/2)