تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جن چار چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کا ذکر فرمایا ہے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ ﴿الم ﴿١﴾ غُلِبَتِ الرُّومُ ﴿٢﴾ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿٣﴾) ’’الم۔ رومی مغلوب ہو گئے، قریبی زمین میں، تاہم وہ مغلوب ہونے کے بعد پھر غالب آ جائیں گے۔‘‘ (الروم1:30۔3) اس کے متعلق مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ واقعہ گزر چکا ہے۔ ٭ ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٠﴾) ’’آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان سے صاف دھواں ظاہر ہو گا۔‘‘ (الدخان:10:44) جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دھواں علامات قیامت سے ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حقیقی دھواں نہیں بلکہ وہ ہے جو قریش کو قحط کے زمانے میں بھوک کی وجہ سے محسوس ہوتا تھا۔ ٭ ﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ﴾ ’’جس دن ہم بڑی سخت گرفت کریں گے۔‘‘ (الدخان:16:44) جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد قیامت کا دن ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس سے مراد بدر کے دن کفار کا شکست کھانا اور قتل ہونا ہے۔ ٭ ﴿فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا ﴿٧٧﴾) ’’تم نے اس کی تکذیب کر دی ہے، اب جلد ہی اس کی سزا پاؤ گے۔‘‘ (الفرقان77:25) جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد کفار کو پکڑ کر جہنم میں ڈالنا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف ہے کہ اس سے مراد بدر کے موقع پر کافروں کو قید کرنا ہے جو گزر چکا ہے۔ ان کی تفصیل آئندہ آیات کی تفسیر میں آئے گی۔ بإذن اللہ۔
(2) اس حدیث میں ہجرت سے پہلے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس میں قحط کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قحط شدہ علاقے ویرانے کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ بالآخر رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان ؓ کی درخواست پر دعا فرمائی، تب قحط ختم ہوا۔
(3) یہ حدیث امام بخاری ؒ نے کتاب الاستسقاء میں اس لیے بیان کی ہے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے بارش کی دعا کرنا مسنون ہے، ویسے ہی کافروں پر قحط اور خشک سالی کی دعا کرنا بھی مشروع ہے، لیکن جن کفار سے معاہدۂ صلح ہو ان کے لیے بددعا کرنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ کسی عہد شکنی کے مرتکب ہوں۔