تشریح:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ بارش کی دعا کے لیے قبلہ رو ہونا ضروری نہیں بلکہ جیسے بھی ممکن ہو کی جا سکتی ہے، البتہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ایک اور بات کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ بارش اللہ کی رحمت ہے بوقت قحط اس کے لیے دعا کرنا مشروع ہے، اسی طرح یہ بارش باعث زحمت بن جائے تو اسے روکنے کی دعا کرنا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں دار القضاء کا لفظ آیا ہے جس کے معنی عام طور پر عدالت کیے جاتے ہیں، حالانکہ یہ صحیح نہیں بلکہ دار القضاء اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس جگہ کو حضرت عمر ؓ کے ذمے قرض کے عوض فروخت کیا گیا تھا، یعنی ان کا قرض اتارنے کے لیے اسے بیچا گیا تھا۔ اسے پہلے دار قضائے دین عمر کہتے تھے، بعد ازاں دار القضاء کے نام سے مشہور ہو گیا۔ (فتح الباري:647/2)