تشریح:
(1) مالکیہ کا موقف ہے کہ منبر پر بارش کی دعا کرنا تضرع اور انکسار کے خلاف ہے جو اس موقع پر درکار ہوتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں منبر کی صراحت نہیں، تاہم خطبۂ جمعہ کے لیے منبر ہوتا تھا، اس لیے دوران خطبہ میں بارش کی دعا بھی منبر ہی پر کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک حدیث میں صراحت بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر فروکش ہوئے، لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور دعا مانگی۔ (سنن أبي داود، صلاة الاستسقاء، حدیث:1173)
(2) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کو آئندہ جمعہ کھڑے ہو کر عرض کرنے والے شخص کے متعلق شک تھا کہ یہ وہی پہلا شخص ہے یا کوئی اور۔ اس سے قبل حدیث میں راوئ حدیث شریک کے سوال کرنے پر انہوں نے اسی شک کا اظہار کیا لیکن مسند ابی عوانہ کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓ نے فرمایا: وہی شخص آئندہ جمعہ کو کھڑا ہوا۔ شاید حضرت انس ؓ بھول کا شکار ہو گئے ہوں۔ امام بیہقی ؒ کی بیان کردہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت خارجہ بن حصن ؓ تھے جو حضرت عیینہ بن حصن کے بھائی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ تبوک سے واپس لوٹے تو حضرت خارجہ کی سربراہی میں بنو فزارہ کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بارانِ رحمت طلب کرنے کی اپیل کی تھی۔ (فتح الباري:651/2)