Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: How the (religious) knowledge will be taken away)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ( خلیفہ خامس ) حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ تمہارے پاس رسول اللہ ﷺکی جتنی بھی حدیثیں ہوں، ان پر نظر کرو اور انھیں لکھ لو، کیونکہ مجھے علم دین کے مٹنے اور علماء دین کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی کی حدیث قبول نہ کرو اور لوگوں کو چاہیے کہ علم پھیلائیں اور ( ایک جگہ جم کر ) بیٹھیں تا کہ جاہل بھی جان لے اور علم چھپانے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔ ہم سے علاء بن عبدالجبار نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے اس کو بیان کیا یعنی عمر بن عبدالعزیز کی حدیث ذہاب العلماء تک۔مقصد یہ کہ پڑھنے پڑھانے ہی سے علم دین باقی رہ سکے گا۔ اس میں کوتاہی ہرگز نہ ہونی چاہئیے
102.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’اللہ تعالیٰ دین کے علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے نکال لے بلکہ اہل علم کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
تشریح:
اللہ تعالیٰ علوم و فنون کو سینوں سے محو کر دینے پر قادر ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ بلکہ قبض علم کی یہ صورت ہو گی کہ خود علماء ختم ہو جائیں گے اور دوسرے علماء پیدا نہ ہوں گے۔ اس حدیث میں علم کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔ ہر عالم کا فریضہ ہے کہ اپنے بعد کچھ علماء چھوڑے، بصورت دیگر جہلا علماء کی جگہ بیٹھیں گے اور گمراہی پھیلائیں گے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم حدیث کی بنیاد پر فتوی دینا ہی حقیقی ریاست ہے۔ (فتح الباري: 258/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
101
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
100
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
100
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
100
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اس عنوان میں علم کے بقا کی صورتیں بیان کی گئی ہیں :ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے ضبط تحریر میں لایا جائے، چنانچہ عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے مدینے کے گورنر ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ تمھیں جس قدر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مستند طریق سےروایات ملیں انھیں لکھ لو۔کیونکہ اگر یہ احادیث سینوں میں محفوظ رہیں تو یہ حفاظ حدیث کب تک زندہ رہیں گے؟ خطرہ ہے کہ ان کی موت کے ساتھ یہ علم بھی دفن ہو جائے گا۔ گردش ایام ہر چیز پر اثر انداز ہوتی ہے علم پر بھی اس کا اثر ہوگا۔ اس لیے فنا سے بچانے کے لیے اسے لکھ لینا ضروری ہے حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک طرف تو کتابت حدیث کی ترغیب دلائی دوسری طرف بقائے علم کے لیے مزید تجاویز دیں ۔پہلی تجویز یہ ہے کہ علم کو پھیلایا جائے جس کی صورت وعظ و تبلیغ ہے۔ دوسری تجویز مجالس علمیہ کا انعقاد ہے۔ اس سے مدارس میں درس و تدریس کا اہتمام کرنا مراد ہے۔ علم کی ہلاکت اس کو راز بنا کر رکھنے میں ہے لہٰذا تعلیم دین کو عام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تعلیمات کو غیر ضروری پابندیوں سے آزاد رکھا جائے۔نوٹ:بخاری کے بعض نسخوں میں کچھ عبارت زائد ہے۔ اس میں سند کے حوالے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات صرف"ذھاب العماء "تک پہنچی ہے اب ان الفاظ کے بعد جو ارشادات ہیں ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں دوسری روایات سے لے کر شامل کردیا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی ان کا اضافہ کردیا ہو کیونکہ یہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات ہی کا نتیجہ ہیں ابو نعیم نے اپنی کتاب تاریخ اصبہان 1/311میں عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے اس اثر کو موصولاً بیان کیا ہے۔
اور ( خلیفہ خامس ) حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ تمہارے پاس رسول اللہ ﷺکی جتنی بھی حدیثیں ہوں، ان پر نظر کرو اور انھیں لکھ لو، کیونکہ مجھے علم دین کے مٹنے اور علماء دین کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی کی حدیث قبول نہ کرو اور لوگوں کو چاہیے کہ علم پھیلائیں اور ( ایک جگہ جم کر ) بیٹھیں تا کہ جاہل بھی جان لے اور علم چھپانے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔ ہم سے علاء بن عبدالجبار نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے اس کو بیان کیا یعنی عمر بن عبدالعزیز کی حدیث ذہاب العلماء تک۔مقصد یہ کہ پڑھنے پڑھانے ہی سے علم دین باقی رہ سکے گا۔ اس میں کوتاہی ہرگز نہ ہونی چاہئیے
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’اللہ تعالیٰ دین کے علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے نکال لے بلکہ اہل علم کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ علوم و فنون کو سینوں سے محو کر دینے پر قادر ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ بلکہ قبض علم کی یہ صورت ہو گی کہ خود علماء ختم ہو جائیں گے اور دوسرے علماء پیدا نہ ہوں گے۔ اس حدیث میں علم کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔ ہر عالم کا فریضہ ہے کہ اپنے بعد کچھ علماء چھوڑے، بصورت دیگر جہلا علماء کی جگہ بیٹھیں گے اور گمراہی پھیلائیں گے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم حدیث کی بنیاد پر فتوی دینا ہی حقیقی ریاست ہے۔ (فتح الباري: 258/1)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوبکر بن حزم کو لکھا: دیکھو! جو رسول اللہﷺ کی احادیث ہیں انہیں لکھ لو، اس لیے کہ مجھے علم مٹ جانے اور علماء کے ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس سلسلے میں صرف نبیﷺکی احادیث ہی قبول کرنا۔ علماء کو چاہئے کہ وہ علم کو پھیلائیں اور علمی مجالس کا اہتمام کریں تاکہ جاہل بھی جان لیں، اس لیے کہ علم چھپانے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے مالک نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے نقل کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
حدیث حاشیہ:
پختہ عالم جودین کی پوری سمجھ بھی رکھتے ہوں اور احکام اسلام کے دقائق ومواقع کو بھی جانتے ہوں، ایسے پختہ دماغ علماء ختم ہوجائیں گے اور سطحی لوگ مدعیان علم باقی رہ جائیں گے جوناسمجھی کی وجہ سے محض تقلید جامد کی تاریکی میں گرفتار ہوں گے اور ایسے لوگ اپنے غلط فتووں سے خود گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ یہ رائے اور قیاس کے دلدادہ ہوں گے۔ یہ ابو عبداللہ محمد بن یوسف بن مطر فربری کی روایت ہے جو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور صحیح بخاری کے اولین راوی یہی فربری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعض روایتوں میں "بغیرعلم" کی جگہ "برأیهم" بھی آیا ہے۔ یعنی وہ جاہل مدعیان علم اپنی رائے قیاس سے فتویٰ دیا کریں گے۔ "قال العینی لا یختص هذا بالمفتیین بل عام للقضاة الجاهلین" یعنی اس حکم میں نہ صرف مفتی بلکہ عالم جاہل قاضی بھی داخل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr bin Al' As (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "Allah does not take away the knowledge, by taking it away from (the hearts of) the people, but takes it away by the death of the religious learned men till when none of the (religious learned men) remains, people will take as their leaders ignorant persons who when consulted will give their verdict without knowledge. So they will go astray and will lead the people astray."