تشریح:
(1) زلازل کا وقوع کبھی شدت ہوا اور کثرت بارش کے موقع پر ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے استسقاء کے عنوان کے تحت انہیں بیان کیا ہے۔ زلزلوں کا کثرت سے آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، اس لیے تضرع اور انکسار کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا چاہیے۔ زلزلے کے وقت کوئی خاص دعا یا طریقۂ نماز احادیث میں نہیں ہے۔
(2) اس حدیث میں ہے کہ ’’وقت کم ہوتا جائے گا۔‘‘ اس کے متعلق شارحین نے مختلف تشریحات بیان کی ہیں: ٭ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کہ حقیقت کے اعتبار سے دن رات چھوٹے ہو جائیں گے۔ ٭ ان کی برکت ختم ہو جائے گی۔ دن رات ایسے گزریں گے کہ کوئی پتہ نہیں چلے گا۔ ٭ لذات و خواہشات کا اس قدر غلبہ ہو گا کہ رات دن کا احساس ختم ہو جائے گا۔ ٭ کثرت مصائب کی وجہ سے حواس معطل ہو جائیں گے، پھر پتہ نہیں چلے گا کہ رات کب آئی اور دن کب ختم ہوا۔ ٭ دور حاضر میں اس تقارب کی صورت یہ ہے کہ شہروں اور ملکوں کی مسافت تیز رفتار گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کی وجہ سے بہت قریب ہو چکی ہے، پھر الیکٹرانک میڈیا، یعنی انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے سے تمام روئے زمین کے لوگ گویا ایک مکان میں جمع ہیں جس سے جب چاہیں رابطہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آئندہ ایسی چیزیں پیدا کرے گا جس کا آج ہمیں شعور نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨﴾) ’’اور وہ کئی ایسی چیزیں پیدا کرے گا جنہیں (آج) تم نہیں جانتے۔‘‘ (النحل8:16)