تشریح:
(1) اس مرکزی عنوان کے اختتام پر امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں ایک نظریاتی اصلاح کو ضروری خیال کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بارش ہونے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ فلاں دن یا فلاں وقت یقینی طور پر بارش ہو جائے گی۔ محکمۂ موسمیات بھی اپنے ظن و تخمین سے پیش گوئی کرتا ہے جو غلط بھی ہو جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں بھی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے: ﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾) ’’بےشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ وہی بارش برساتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ شکم مادر میں کیا ہے۔ نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ کل کیا کام کرے گا اور نہ یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں مرے گا۔ یقینا اللہ یہ سب کچھ خوب جاننے والا بڑا باخبر ہے۔‘‘ (لقمان34:31)
(2) آج کل رحم مادر کے متعلق بہت بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ جدید آلات کے ذریعے سے بچے کے نر اور مادہ ہونے کا پتہ لگا لیا جاتا ہے، حالانکہ ماں کے پیٹ میں صرف نر مادہ نہیں بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب فرشتہ جنین میں روح ڈالتا ہے تو اس کی عمر، اس کی روزی، وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت، الغرض یہ تمام باتیں بھی رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں، نیز جدید آلات سے جو کچھ پتہ لگایا جاتا ہے وہ بھی یقینی اور حتمی نہیں ہوتا۔ روز مرہ کے سینکڑوں واقعات و مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس طرح کی معلومات کے متعلق دلچسپی رکھنا بے سود ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کی پیش گوئی کی بنا پر گھر میں تقریبات کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں کہ اچانک لڑکے کے بجائے لڑکی کی پیدائش ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے، اس لیے الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے سے معلومات لینا فضول شوق کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ واللہ أعلم۔