تشریح:
(1) امام بخاری ؒ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کی اہمیت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ شمس و قمر کو بے نور کر کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے حضور توبہ و استغفار کا نذرانہ پیش کریں، اسے کھیل اور تماشا تصور نہ کریں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿٥٩﴾) (بني إسرائیل58:17) ’’ہم تو اپنی نشانیاں اس لیے بھیجتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے بندوں کو ڈرایا جائے۔‘‘ لہذا بندوں کو چاہیے کہ ایسے حالات میں نماز کا اہتمام کریں، صدقہ و خیرات کریں اور اللہ کے حضور ڈرتے ہوئے توبہ و استغفار کریں۔
(2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں کچھ متابعات ذکر فرمائی ہیں کہ یونس سے ان کے کچھ شاگردوں نے حدیث کے آخری الفاظ بیان نہیں کیے۔ ان میں ایک عبدالوارث ہیں۔ ان کی روایت کو امام بخاری نے خود (نمبر: 1063 کے تحت) بیان کیا ہے۔ اسی طرح کسوف القمر کے باب میں (نمبر: 1062 کے تحت) شعبہ کی روایت کو ذکر کیا ہے جس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ اور خالد بن عبداللہ کی روایت (نمبر: 1040 کے تحت) پہلے گزر چکی ہے۔ حماد بن سلمہ کی روایت کو امام طبرانی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:692/2) اسی طرح اشعث بن عبدالملک نے حسن بصری سے اس روایت کو نقل کیا ہے، اس میں بھی حدیث کے آخری الفاظ نہیں ہیں۔ اس روایت کو امام نسائی اور ابن حبان نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (سنن النسائي، الکسوف، حدیث:1493)
(3) موجودہ سائنس نے اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ اس کے ذریعے سے چاند اور سورج کے گرہن کی قبل از وقت پیش گوئی کر دی جاتی ہے کہ فلاں ملک میں فلاں وقت سورج یا چاند گرہن ہو گا اور یہ گرہن کلی یا جزوی ہو گا اور اتنا عرصہ قائم رہے گا۔ تجربہ کے اعتبار سے وہ پیش گوئی بالکل صحیح ہوتی ہے، اس میں سرمو فرق نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود حدیث کے مطلب میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا مظاہرہ کرتا ہے کہ سورج اور چاند جیسے بڑے بڑے اجرام کو دم بھر میں تاریک کر دیتا ہے، لہذا اس کی عظمت و کبریائی کا اعتراف اور اس کی طاقت و ہیبت سے بندوں کو ہمہ وقت ڈرنا چاہیے۔ (فتح الباري:693/2)