قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ الكُسُوفِ (بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ جَمَاعَةً )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَصَلَّى ابْنُ عَبَّاسٍ لَهُمْ فِي صُفَّةِ زَمْزَمَ وَجَمَعَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ

1052. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ انْخَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ ثُمَّ رَأَيْنَاكَ كَعْكَعْتَ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ عُنْقُودًا وَلَوْ أَصَبْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا وَأُرِيتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا كَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ قَالُوا بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِكُفْرِهِنَّ قِيلَ يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ قَالَ يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ كُلَّهُ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور عبداللہ بن عباس ؓ نے زمزم کے چبوترہ میں لوگوں کو یہ نماز پڑھائی تھی اور علی بن عبداللہ بن عباس نے اس کے لیے لوگوں کو جمع کیا اور عبداللہ بن عمر ؓ نے نماز پڑھائی۔(یہ علی بن عبداللہ تابعی ہیں ۔ عبداللہ بن عباس کے بیٹے ہیں اور خلفائے عباسیہ ان ہی کی اولاد ہیں ان کوسجاد کہتے ہیں کیونکہ یہ ہرروز ہزار سجدے کیا کرتے تھے جس رات حضرت علی مرتضی شہید ہوئے اسی رات کو یہ پیدا ہوئے اس لئے ان کا بطور یاد گار علی ہی رکھا گیا۔اس روایت کو ابن شیبہ نے موصولاً ذکر کیا ہے(قسطلانی))

1052.

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کے عہد مبارک میں جب سورج بے نور ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ آپ کا قیام سورہ بقرہ کی قراءت کی طرح طویل تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد سر اٹھایا تو پھر دیر تک قیام کیا لیکن آپ کا یہ قیام پہلے قیام سے قدرے کم تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ فرمایا۔ بعد ازاں ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے سے قدرے مختصر تھا، اس کے بعد سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے قدرے تھوڑا تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا اس کے بعد آپ نے سجدہ فرمایا۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ دونوں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے۔ جب تم اس قسم کا حادثہ دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔‘‘ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ کھڑے کھڑے کوئی چیز ہاتھ میں لی، پھر ہم نے آپ کو پیچھے ہٹتے ہوئے بھی دیکھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جنت کو دیکھا اور ایک خوشہ انگور کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا، اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے۔ اس کے بعد مجھے جہنم دکھائی گئی۔ میں نے آج تک اس سے زیادہ بھیانک منظر نہیں دیکھا۔ میں نے اہل دوزخ میں زیادہ تر عورتوں کی تعداد دیکھی۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کی وجہ ان کی ناشکری ہے۔‘‘ عرض کیا گیا: آیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’(نہیں بلکہ) وہ اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کا احسان نہیں مانتیں۔ اگر تم کسی عورت کے ساتھ تمام عمر احسان کرو، پھر کبھی تمہاری طرف سے کوئی ناخوش گوار بات دیکھے تو فورا کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔‘‘