تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گرہن کے وقت نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے اور اگر مقرر امام موجود نہ ہو تو کوئی بھی صاحب علم یہ فریضہ ادا کر سکتا ہے، البتہ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ اگر امام راتب نہ ہو تو لوگوں کو انفرادی طور پر نماز پڑھنی چاہیے لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔ (فتح الباري:697/2) (2) بظاہر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کھلی آنکھ سے جنت کا مشاہدہ فرمایا اور آپ کے لیے جنت کے تمام حجابات اٹھا دیے گئے اور تمام مسافت کو لپیٹ دیا گیا یہاں تک کہ خوشۂ انگور توڑنے کا امکان پیدا ہو گیا۔ اس کی تائید حضرت اسماء ؓ سے مروی حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت میرے قریب آ گئی۔ اگر میں جرءت کرتا تو تمہارے لیے خوشۂ انگور لے آتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:745) ممکن ہے کہ آپ کے سامنے جنت کو مثالی طور پر پیش کیا گیا ہو۔ جیسا کہ آئینے میں کسی چیز کی تصویر نظر آتی ہے۔ اس کی تائید حدیث انس سے ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی ابھی میرے سامنے دیوار قبلہ میں جنت اور دوزخ کو بطور مثال پیش کیا گیا تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:749) اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جنت اور دوزخ کا متعدد مرتبہ مشاہدہ کرایا گیا تھا۔ جب آپ ﷺ معراج پر گئے تھے تو اس وقت بھی آپ نے ان کا مشاہدہ کیا تھا، لیکن اسے مشاہدۂ جمال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جبکہ نماز کسوف کے موقع پر مشاہدۂ جلال کے طور پر آپ نے انہیں دیکھا تھا۔ واللہ أعلم۔ (3) حدیث جابر میں رسول اللہ ﷺ نے ایسی بری خصلتوں کو بیان فرمایا ہے جو اکثر عورتوں کو جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے ایسی عورتوں کو بکثرت جہنم میں دیکھا جو راز افشا کر کے امانت میں خیانت کرتی ہیں، اگر ان سے کوئی چیز مانگی جائے تو بخل سے کام لیتی ہیں، اگر خود سوال کرنا ہو تو چمٹ جاتی ہیں اور اگر انہیں دیا جائے تو ناشکری پر اتر آتی ہیں۔‘‘ یہ وہ اوصاف ہیں جو عورتوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں اور ان کے باعث اکثر عورتیں جہنم کا ایندھن بنیں گی۔ (فتح الباري:700/2) أعاذنا اللہ منه۔