تشریح:
1۔ خطباء حضرات جوش خطابت میں بعض دفعہ کئی ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو سرا سر غلط ہوتی ہیں، پھر ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دیتے ہیں، یعنی ان غلط باتوں کو حدیث کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی چیز کے انتساب میں کامل یقین، پورے احتیاط اور تثبت کی ضرورت ہے اگر احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تو نیکی برباد گناہ لازم کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والے کے لیے جہنم ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کے مقابلے میں آگ میں داخل ہونا گوارا کرلیا جائے لیکن آپ پر جھوٹ نہ بولا جائے۔ واللہ اعلم
2۔ اس وعید میں ہر طرح کا جھوٹ آجاتا ہے جو لوگ ترغیب و ترہیب کے باب میں بے اصل روایات بیان کرتے ہیں وہ بھی اس وعید کی زد میں آتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ اس باب میں توسع کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص دین کو فروغ دینے اور فائدہ پہنچانے کی غرض سے جھوٹی روایت بیان کرتا ہے تو اس کے لیے صرف اجازت ہی نہیں بلکہ یہ ایک مستحسن عمل ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں (كَذَبَ عَلَىَّ) ہے،كَذَبَ کے بعد عَلٰى کاصلہ نقصان کے لیے آتا ہے، اگر نقصان کے بجائے فائدہ پہنچانا مقصود ہوتو چنداں حرج کی بات نہیں۔ لیکن یہ عربی زبان سے ناواقفیت کی علامت ہے کیا انھیں علم نہیں ہے کہ دینی معاملات میں جھوٹ دراصل کذب علی اللہ ہی کی ایک شکل ہے اور اللہ پر جھوٹ بولنا مطلقاً حرام ہے خواہ وہ ترغیب و ترہیب سے متعلق ہو یا اصل احکام دین کے بارے میں یہ حضرات ایک روایت کو بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ ’’جس شخص نے گمراہ کرنے کے لیے جھوٹ بولا۔‘‘ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر جھوٹ بولنے کا مقصد گمراہی پھیلانا ہے تو اس کے لیے وعید ہے لیکن اگر مقصد گمراہی پھیلانا نہیں تو وعید کا مصداق نہیں ہے۔ یہ استدلال کئی وجوہ سے درست نہیں۔ (1)۔ محدثین کرام نے اس حدیث بزار کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف کیا ہے۔ دارقطنی اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے مرسل ہونے ہی کو ترجیح دی ہے اور مرسل روایت قابل حجت نہیں ہے(لِيُضِلَّ) کا لام علت کے لیے نہیں بلکہ عاقبت کے لیے ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے:﴿فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ’’اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھاتا کہ لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کرے۔‘‘ (الأنعام: 6/ 144) (2)۔ اس آیت میں (لِيُضِلَّ) کا لام بھی انجام کار پر تنبیہ کے لیے لایا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ پر افترا کا نتیجہ گمراہی پھیلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں لہٰذا جس طرح اللہ پر جھوٹ باندھنا حرام ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا بھی ناجائز ہے۔ (فتح الباري: 264/1)