صحیح بخاری
3. کتاب: علم کے بیان میں
35. باب: اس بارے میں کہ ایک شخص کوئی بات سنے اور نہ سمجھے تو دوبارہ دریافت کرلےتا کہ وہ اسے (اچھی طرح)سمجھ لے‘یہ جائز ہے۔
صحيح البخاري
3. كتاب العلم
35. بَابُ مَنْ سَمِعَ شَيْئًا فَلَمْ يَفْهَمْهُ فَرَاجَعَ فِيهِ حَتَّى يَعْرِفَهُ
Sahi-Bukhari
3. Knowledge
35. Chapter: Whoever heard something (but did not understand it) and then asked again till he understood it completely
باب: اس بارے میں کہ ایک شخص کوئی بات سنے اور نہ سمجھے تو دوبارہ دریافت کرلےتا کہ وہ اسے (اچھی طرح)سمجھ لے‘یہ جائز ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whoever heard something (but did not understand it) and then asked again till he understood it completely)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
106.
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ جب کوئی ایسی بات سنتیں جسے سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ پوچھتیں تاکہ سمجھ لیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن جس سے محاسبہ ہوا، اسے عذاب دیا جائے گا۔‘‘ تو اس پر حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:’’اس کا حساب آسانی سے لیا جائے گا۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’(یہ حساب نہیں ہے) بلکہ اس سے مراداعمال کی پیشی ہے، لیکن جس سے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی وہ یقینا ہلاک ہو جائے گا۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تعلیم دین کی افادیت ایک اور پہلو سے اجاگر فرماتے ہیں کہ اگر شاگرد اپنے استاد کی بات اچھی طرح نہ سمجھ سکا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنی تسلی کے لیے دوبارہ پوچھ لے، مقاصد کے پیش نظر ایسا کرنا قابل تحسین ہے۔ اس میں استاد کے متعلق سوء ادبی کا پہلو نہیں نکلتا اور نہ اس سے کوئی ناگواری ہونی چاہیے نیز اس میں شاگرد کی تحقیر بھی نہیں اس لیے دوبارہ پوچھنے سے حیا کرنا مناسب نہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عادت تھی کہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو اسے دوبارہ پوچھ لیا کرتی تھیں اور جب تک سمجھ نہیں لیتی تھیں پوچھتی رہتیں۔ اس سے دوبارہ سوال کرنے کا مقصد بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس قسم کا استفسار صرف اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہے۔ تعنت کے طور پر (بال کی کھال اتارنے کے لیے) سوال کرنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں ہے۔ 2۔ صدیقہ کائنات کے سوال اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب کی دو اقسام ہیں ہیں: ایک حساب مناقشہ جس کا دوسرا نام حساب عرفی ہے۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ بندے کی کوتاہیوں کو پیش کرنے کے بعد اسے یہ بھی کہا جائے گا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ یہ باز پرسں خود اتنا بڑا عذاب اور اس قدر سخت مرحلہ ہوگا کہ رب کائنات کے مناقشے کے بعد انسان کے دل و دماغ کی تمام قوتیں معطل ہو جائیں گی، یہی اس کی تباہی و بربادی اور حشر سامانی ہوگی، اس کے لیے عذاب نار ضروری نہیں ہے۔ حساب کی دوسری قسم حساب یسیر ہے جس کا دوسرا نام حساب لغوی ہے۔ اس میں بندے کے گناہوں کو صرف پیش کیا جائے گا۔ اور ساتھ ہی اسے معافی کا پروانہ دے دیا جائے گا۔ جس کی وجہ سے بندہ اپنے اہل خانہ کی طرف خوش و خرم لوٹے گا۔ (الإنشقاق:84: 9) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کا عموم صدیقہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کا باعث ہوا۔ اسی طرح کا ایک اشکال حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی پیش آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اہل بدر اور اہل حدیبیہ میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دریافت فرمایا کہ قرآن کریم سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہنم سے ہر ایک کو واسطہ پڑے گا؟ پھر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی ’’تم میں سے کوئی نہیں جس کا اس (جہنم)پر سے گزر نہ ہو۔‘‘ (مریم19: 71) اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا اگلا حصہ پڑھ کر سنا دیا: ’’ پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جو ڈرگئے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا رہنے دیں گے۔‘‘ (مسند احمد: 6/ 258،362) اس سے معلوم ہوا کہ رشد و ہدایت کے لیے عربی دانی یا صاحب قرآن سے بالا قرآن فہمی کافی نہیں بلکہ یہ انداز سراسر ضلالت پر مبنی ہے۔ (فتح الباري: 260/1) مزید برآں یہ کہ اگر دینی مسئلے میں کسی کو اشکال ہو تو سوال کے ذریعے سے اس کاحل تلاش کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
105
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
103
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
103
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
103
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ جب کوئی ایسی بات سنتیں جسے سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ پوچھتیں تاکہ سمجھ لیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن جس سے محاسبہ ہوا، اسے عذاب دیا جائے گا۔‘‘ تو اس پر حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:’’اس کا حساب آسانی سے لیا جائے گا۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’(یہ حساب نہیں ہے) بلکہ اس سے مراداعمال کی پیشی ہے، لیکن جس سے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی وہ یقینا ہلاک ہو جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تعلیم دین کی افادیت ایک اور پہلو سے اجاگر فرماتے ہیں کہ اگر شاگرد اپنے استاد کی بات اچھی طرح نہ سمجھ سکا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنی تسلی کے لیے دوبارہ پوچھ لے، مقاصد کے پیش نظر ایسا کرنا قابل تحسین ہے۔ اس میں استاد کے متعلق سوء ادبی کا پہلو نہیں نکلتا اور نہ اس سے کوئی ناگواری ہونی چاہیے نیز اس میں شاگرد کی تحقیر بھی نہیں اس لیے دوبارہ پوچھنے سے حیا کرنا مناسب نہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عادت تھی کہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو اسے دوبارہ پوچھ لیا کرتی تھیں اور جب تک سمجھ نہیں لیتی تھیں پوچھتی رہتیں۔ اس سے دوبارہ سوال کرنے کا مقصد بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس قسم کا استفسار صرف اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہے۔ تعنت کے طور پر (بال کی کھال اتارنے کے لیے) سوال کرنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں ہے۔ 2۔ صدیقہ کائنات کے سوال اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب کی دو اقسام ہیں ہیں: ایک حساب مناقشہ جس کا دوسرا نام حساب عرفی ہے۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ بندے کی کوتاہیوں کو پیش کرنے کے بعد اسے یہ بھی کہا جائے گا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ یہ باز پرسں خود اتنا بڑا عذاب اور اس قدر سخت مرحلہ ہوگا کہ رب کائنات کے مناقشے کے بعد انسان کے دل و دماغ کی تمام قوتیں معطل ہو جائیں گی، یہی اس کی تباہی و بربادی اور حشر سامانی ہوگی، اس کے لیے عذاب نار ضروری نہیں ہے۔ حساب کی دوسری قسم حساب یسیر ہے جس کا دوسرا نام حساب لغوی ہے۔ اس میں بندے کے گناہوں کو صرف پیش کیا جائے گا۔ اور ساتھ ہی اسے معافی کا پروانہ دے دیا جائے گا۔ جس کی وجہ سے بندہ اپنے اہل خانہ کی طرف خوش و خرم لوٹے گا۔ (الإنشقاق:84: 9) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کا عموم صدیقہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کا باعث ہوا۔ اسی طرح کا ایک اشکال حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی پیش آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اہل بدر اور اہل حدیبیہ میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دریافت فرمایا کہ قرآن کریم سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہنم سے ہر ایک کو واسطہ پڑے گا؟ پھر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی ’’تم میں سے کوئی نہیں جس کا اس (جہنم)پر سے گزر نہ ہو۔‘‘ (مریم19: 71) اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا اگلا حصہ پڑھ کر سنا دیا: ’’ پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جو ڈرگئے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا رہنے دیں گے۔‘‘ (مسند احمد: 6/ 258،362) اس سے معلوم ہوا کہ رشد و ہدایت کے لیے عربی دانی یا صاحب قرآن سے بالا قرآن فہمی کافی نہیں بلکہ یہ انداز سراسر ضلالت پر مبنی ہے۔ (فتح الباري: 260/1) مزید برآں یہ کہ اگر دینی مسئلے میں کسی کو اشکال ہو تو سوال کے ذریعے سے اس کاحل تلاش کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انھیں نافع بن عمر نے خبر دی، انھیں ابن ابی ملیکہ نے بتلایا کہ رسول اللہ ﷺ کی بیوی حضرت عائشہ ؓ جب کوئی ایسی باتیں سنتیں جس کو سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ اس کو معلوم کرتیں تا کہ سمجھ لیں۔ چنانچہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس سے حساب لیا گیا اسے عذاب کیا جائے گا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ (یہ سن کر) میں نے کہا کہ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ صرف (اللہ کے دربار میں) پیشی کا ذکر ہے۔ لیکن جس کے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی (سمجھو) وہ غارت ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شوق علم اور سمجھ داری کا ذکر ہے کہ جس مسئلہ میں انھیں الجھن ہوتی، اس کے بارے میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے تکلف دوبارہ دریافت کرلیا کرتی تھیں۔ اللہ کے یہاں پیشی تو سب کی ہوگی، مگر حساب فہمی جس کی شروع ہوگئی وہ ضرور گرفت میں آجائے گی۔ حدیث سے ظاہر ہوا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے توشاگرد استاد سے دوبارہ سہ بارہ پوچھ لے، مگرکٹ حجتی کے لیے باربار غلط سوالات کرنے سے ممانعت آئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abu Mulaika (RA): Whenever 'Aisha (RA) (the wife of the Prophet (ﷺ)) heard anything which she did not understand, she used to ask again till she understood it completely. Aisha (RA) said: "Once the Prophet (ﷺ) said, "Whoever will be called to account (about his deeds on the Day of Resurrection) will surely be punished." I said, "Doesn't Allah say: "He surely will receive an easy reckoning." (84.8) The Prophet (ﷺ) replied, "This means only the presentation of the accounts but whoever will be argued about his account, will certainly be ruined."