تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت کا نزول ہوا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4863) یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ سجدہ ہائے تلاوت کے سلسلے میں اس حدیث کو پہلے لائے ہیں۔ لیکن اعتراض ہو سکتا ہے کہ سورۂ علق اس سے قبل نازل ہوئی تھی جس میں سجدۂ تلاوت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پہلے نازل ہوئی تھیں جن میں سجدۂ تلاوت نہیں ہے اور سجدے پر مشتمل آیات کا نزول سورۂ نجم کے بعد ہوا ہے، یعنی سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت بھی ہے اور اسے رسول اللہ ﷺ نے علانیہ طور پر مشرکین مکہ کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے۔ (فتح الباري:712/2)
(2) اس میں اس کے طریقے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سجدہ زمین پر ہونا چاہیے، مٹی یا کنکریاں ہاتھ میں لے کر پیشانی پر رکھ لینا مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔
(3) ایک روایت میں اس عمر رسیدہ شخص کی صراحت ہے جس نے سجدۂ تلاوت نہیں کیا تھا۔ وہ امیہ بن خلف تھا جس نے مٹی ہاتھ میں لے کر اس پر اپنا ماتھا ٹیک دیا تھا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4863) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سورۂ نجم کی تلاوت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین نے بھی سجدہ کیا تھا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دی تو تمام لوگوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا تھا۔ اس وقت اتنے لوگ آپ کے ساتھ تھے کہ بھیڑ کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سجدۂ تلاوت کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی، لیکن جب قریش کے سردار ولید بن مغیرہ اور ابوجہل وغیرہ طائف سے مکہ آئے تو ان کے گمراہ کرنے سے مشرکین اپنے آبائی دین کی طرف واپس لوٹ گئے۔ یہ لوگ اپنے سرداروں کو خوش کرنے کے لیے مرتد ہوئے تھے۔ دین اسلام سے بیزار ہو کر کوئی آدمی مرتد نہیں ہوا جیسا کہ حضرت ابو سفیان ؓ نے حدیث ہرقل میں اس کا اعتراف کیا تھا۔ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:7) حافظ ابن حجر ؒ نے مشرکین کے سجدہ کرنے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔ (فتح الباري:712/2) لیکن انہیں نقل واقعہ کے وقت ان کی موجودہ حالت کی وجہ سے مشرکین کہا گیا کیونکہ اعتبار انجام کا ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ چونکہ اس روایت میں معبودان باطلہ لات، منات اور عزیٰ کا ذکر ہے، اس لیے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی تو مشرکین خوشی میں آ کر اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدے میں گر گئے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں جو غرانیق کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ سرے سے بے بنیاد اور غلط ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں: حق یہ ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کا جلال و جبروت دیکھ کر اور قرآن کریم کے مواعظ عقلیہ سے متاثر ہو کر سجدہ کیا، ان کے ہاں کوئی اختیار ہی باقی نہیں رہا تھا اور یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں۔