تشریح:
عزائم سجود سے مراد وہ سجودِ تلاوت ہیں جنہیں بجا لانے کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حم سجدہ، النجم، اقراء، الم تنزیل کے سجود عزائم سے ہیں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:315/2، و المصنف لابن أبي شیبة:378/1، رقم:4349) سورۂ ص کے سجدے کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ سجدہ عزائم سجود میں سے نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جن انبیاء کی پیروی کرنے کا حکم ہے ان میں حضرت داود ؑ ہیں، چونکہ انہوں نے سجدہ کیا تھا، اس لیے سورۂ ص میں سجدہ کرنا چاہیے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3421) سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدۂ ص کے متعلق فرمایا: ’’حضرت داود ؑ کا یہ سجدہ بطور توبہ تھا اور ہم ان کی پیروی میں بطور شکر سجدہ کرتے ہیں۔'' (سنن النسائي، الافتتاح، حدیث:958) ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورۂ ص کو منبر پر تلاوت فرمایا، جب مقام سجدہ پر پہنچے تو نیچے اتر کر سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ ادا کیا، پھر کسی اور دن اسے تلاوت فرمایا، لوگ حسب سابق سجدے کے لیے تیار ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’یہ سجدہ تو ایک نبی کی توبہ کی بنا پر تھا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ تم سجدے کے لیے تیار ہو چکے ہو۔‘‘ اس لیے آپ منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا۔ (سنن أبي داود، سجودالقرآن، حدیث:1410) لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ ادا کیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سجدہ تو ہے لیکن اس کے متعلق تاکید نہیں ہے۔ (فتح الباري:714/2)