تشریح:
1۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں ہوا کا مطلب یہ نہیں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل الگ نہیں ہوئے الگ تو یقیناً ہوئے ہیں جیسا کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینے کی طرف ہجرت فرمائی اس وقت بھی آپ ساتھ نہیں تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اکثر اوقات میں آپ کے ساتھ رہا ہوں جب صحبت طویل ہے تو سماع بھی زیادہ ہے اور زیادہ سماع کا تقاضا ہے کہ میں کثرت سے آپ کی احادیث بیان کروں لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں غلطی سے کوئی ایسی بات آپ کی طرف منسوب نہ کر بیٹھوں جو آپ کی فرمودہ نہ ہو۔ (فتح الباري: 265/1)
2۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بایں الفاظ جواب دیا: اے میرے لخت جگر! تجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے ساتھ قرابت داری بھی زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی میری والدہ ہیں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میری پھوپھی ہیں تیری والدہ (حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میری بیوی ہے اور ان (اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں لیکن کثرت روایات سے مذکورہ احتیاط ہی روک رہی ہے۔ (فتح الباري: 265/1)
3۔ اس روایت میں’’دیدہ دانستہ ‘‘ کی شرط بھی نہیں لیکن بے احتیاطی بہر حال درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بلا ارادہ بھی غلط نسبت ہوگئی تو خطرے سے خالی نہیں۔ ایسے حالات میں احتیاط سے کام نہ لینا ایک اختیاری چیز سے غیراختیاری چیز کو پیدا ہونے کی گنجائش دینا ہے۔ اس بنا پر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہ کثرت سے بیان کرتا ہوں اور نہ میں خطرہ مول لیتا ہوں۔