تشریح:
(1) حدیث میں اشارے سے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں۔ چونکہ حدیث میں بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے متعلق تفصیل نہیں کہ وہ کس طرح نماز پڑھے، اس عموم کے پیش نظر امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا اشارے سے رکوع اور سجود کر لے تو اس کے لیے جائز ہے۔ بعض مالکی حضرات کا یہ موقف ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والا اگر رکوع اور سجود کر سکتا ہو تو بھی اسے اجازت ہے کہ وہ اشارے سے نماز پڑھ لے۔ واللہ أعلم۔
(2) شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ لکھتے ہیں: اگر مریض بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو اپنے پہلو کے بل لیٹ کر قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے، دائیں پہلو پر لیٹنا افضل ہے۔ اگر قبلے کی طرف منہ کرنے کی ہمت نہیں تو جس سمت بھی منہ ہے نماز پڑھ لے۔ اگر پہلو کے بل لیٹ نہیں سکتا تو سیدھا لیٹ کر نماز ادا کرے۔ اس صورت میں اس کے پاؤں قبلہ کی طرف ہوں گے۔ بہتر ہے کہ سر کے نیچے کوئی چیز رکھ کر اسے اونچا کرے تاکہ قبلہ کی طرف اس کا منہ ہو سکے۔ اگر پاؤں قبلہ کی طرف نہ ہو سکیں تو جیسے بھی ممکن ہو نماز پڑھ لے۔ مریض کو چاہیے کہ وہ رکوع و سجود بجا لائے۔ اگر اس کی ہمت نہیں تو اشارے سے رکوع اور سجدہ کر لے۔ ایسے حالت میں سجدے کے وقت کچھ زیادہ جھکے۔ اگر سر کے اشارے سے نماز نہیں پڑھ سکتا تو آنکھ کے اشارے سے نماز پڑھے۔ رکوع کے وقت تھوڑی سی آنکھ بند کر لے اور سجدے کے وقت اس سے زیادہ بند کرے۔ بعض مریض انگلی کے اشارے سے نماز پڑھتے ہیں، اس کا ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا اور نہ اہل علم ہی میں سے کسی نے اس کی اجازت دی ہے۔ اگر آنکھ سے اشارہ بھی نہیں کر سکتا تو دل سے نماز ادا کرے، یعنی رکوع، سجود، قیام و قعود کی دل سے نیت کرے، ہر انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے نیت کی، بہرحال جب تک اسے ہوش ہے اس سے نماز معاف نہیں ہوتی۔ (صلاة المریض، ص:6)