تشریح:
(1) دوسری حدیث پہلی کا تتمہ ہے، چنانچہ ایک تفصیلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوئے تو ایک یا دو رات آپ تہجد کے لیے نہ اٹھ سکے۔ ان دنوں ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے محمد ﷺ ! مجھے امید ہے کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے اور وہ اب دو تین رات سے آپ کے قریب نہیں آتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ نازل فرمائی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4950)
(2) رسول اللہ ﷺ سے اس قسم کی گفتگو کرنے والی عورت ابولہب لعین کی بیوی ام جمیل عوراء بنت حرب تھی۔ یہ عورت خود شیطان تھی جس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس فرشتہ نہیں بلکہ شیطان آتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں ایک عورت نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھی نے دیر کر دی ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4951) اس انداز گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی دوسری عورت تھی، کیونکہ اس نے یا محمد کے بجائے یا رسول اللہ کہا اور لفظ شیطان کے بجائے صاحب کا لفظ استعمال کیا ہے، چنانچہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ تھی۔ (فتح الباري:13/3) درحقیقت یہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔ ابولہب کی بیوی نے آپ ﷺ کو یا محمد کہا اور جبرائیل ؑ کو شیطان سے تعبیر کیا اور یہ مذاق کے طور پر تھا جبکہ سیدہ خدیجہ ؓ نے نبی ﷺ کو یا رسول اللہ کہا اور جبرائیل ؑ کو صاحب سے تعبیر کیا اور ان کا مقصد غم خواری تھا۔
(3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی عذر کی وجہ سے تہجد کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔