تشریح:
(1) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے عمومی طرز عمل کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کا کسی کام کو پسند کرنا اس کام کی ترغیب ہے۔ عنوان کا پہلا حصہ یہی ہے، لیکن اس کام کو اس اندیشے کے پیش نظر ترک کر دینا کہ لوگوں کے مسلسل عمل سے کہیں فرض نہ ہو جائے، اس سے عنوان کا دوسرا جز، عدم وجوب سے ثابت ہوتا ہے، کیونکہ فرض عمل کو کسی خطرے کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ امام مالک ؒ نے موطا میں یہ الفاظ مزید بیان کیے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں پر تخفیف پسند کرتے تھے تاکہ کسی کام کی وجہ سے ان پر بوجھ نہ ہو۔ (فتح الباري:18/3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھا کام اگر کسی خرابی کا پیش خیمہ ہو تو اسے ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(2) حضرت عائشہ ؓ نے اپنی معلومات کے پیش نظر نماز چاشت کے متعلق کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ والے دن حضرت ام ہانی ؓ کے گھر نماز چاشت پڑھی، نیز آپ نے حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو اس کے پڑھنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔ نماز چاشت کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔