تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا خود تین رات نماز شب کا اہتمام کرنا اور لوگوں کا آپ کے ساتھ اسے ادا کرنا اس سے ترغیب ثابت ہوتی ہے، پھر فرض ہونے کے اندیشے کے پیش نظر باہر تشریف نہ لانا اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے۔ امام بخاری ؒ اس سے یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
(2) اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل نماز کی جماعت صحیح ہے، لیکن اس کے لیے لوگوں کو دعوت دینا صحیح نہیں، البتہ نماز تراویح کا معاملہ اس سے الگ ہے، کیونکہ حضرت عمر ؓ نے، فرضیت کا اندیشہ، جس کے باعث نبی ؓ نے جماعت تراویح ترک کی تھی، ختم ہونے پر اپنے دور خلافت میں اس کی جماعت کا اہتمام سرکاری طور پر فرمایا تھا، کیونکہ اس وقت فرضیت کا اندیشہ نہیں رہا تھا۔ تراویح کے علاوہ دیگر نوافل تداعی کے بغیر جماعت سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ تداعی کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس کے لیے اہتمام کے ساتھ دعوت دی جائے۔ ایسا کرنا صحیح نہیں۔
(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے شروع نماز میں امامت کی نیت نہیں کی، اس کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اسے محل نظر قرار دیا ہے، لیکن دیگر احادیث سے حافظ ابن حجر ؒ کا موقف محل نظر قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے جبکہ انہوں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر رات گزاری تھی اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز شب میں شامل ہوئے تھے۔ واللہ أعلم۔