تشریح:
(1) ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے آپ سے عرض کیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں تو آپ اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: ’’میں ایسا اللہ کی شکر گزاری کے طور پر کرتا ہوں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ شکر گزاری کا ایک طریقہ نماز ہے، نیز معلوم ہوا کہ شکر زبان کے علاوہ عمل سے بھی ادا کرنا چاہیے، کیونکہ زبان سے اعتراف احسان کرتے ہوئے خدمات کی بجا آوری کو شکر کہا جاتا ہے۔ (فتح الباری:21/3)
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت کے سلسلے میں اپنے آپ پر سختی کی جا سکتی ہے، خواہ وہ جسمانی تکلیف ہی کا باعث کیوں نہ ہو، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے، حالانکہ آپ کو علم تھا کہ آپ کے سب گناہ معاف ہیں، تو جس انسان کو اپنے انجام کے متعلق علم نہیں اسے تو بالاولیٰ اسے سرانجام دینا چاہیے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کثرت عبادت اور اس پر سختی، دل کی تنگی کا باعث نہ ہو، کیونکہ حدیث میں ہے کہ تم اپنی ہمت کے مطابق اعمال بجا لاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اجر دینے میں تنگ دل نہیں، تم خود ہی عبادت سے تنگ آ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5861)