Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The writing of knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
114.
حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت علی ؓ سے دریافت کیا: آیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا: ’’نہیں، ہاں ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور وہ فہم ہے جو ایک مسلمان مرد کو دی جاتی ہے یا جو کچھ اس صحیفے میں موجود ہے۔ میں نے پوچھا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: دیت کے احکام، قیدی کو چھڑانے کا بیان اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔‘‘
تشریح:
1۔ کتابت حدیث کے متعلق سلف کی آراء مختلف ہیں۔ اس اختلاف کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اجمال سے کام لیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مختلف فیہ مسائل میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا طریق کار یہ ہے کہ وہ عنوان میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتے۔ البتہ اس کے تحت احادیث وآثار پیش کر کے اپنا رجحان ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس مقام پر بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اگرچہ بعد میں اجماع سے کتابت حدیث کا جواز بلکہ استحباب ثابت ہوچکا ہے بلکہ اندیشہ نسیان کے پیش نظر اس کا وجوب بھی بعید نہیں۔ (فتح الباري: 269/1) 2۔ کتب حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کتابت حدیث کے متعلق ایک حکم امتناعی بایں الفاظ نقل ہوا ہے:’’میری کوئی بات نہ لکھا کرو اور جس نے قرآن کے علاوہ میری باتوں کو لکھا ہے ،اسے چاہیے کہ وہ مٹادے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذھد، حدیث: 7510(3004))اس میں کتابت حدیث سے منع کیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کتابت حدیث کی اجازت تھی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل منقول ہے۔ اس تعارض کو دور کرنے کے لیے مختلف انداز اختیار کیے گئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ (الف)۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ روایت موقوف ہے، اسے موقوف ماننے والوں میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، اس بنا پر تعارض کا قصہ ہی ختم ہے۔ (فتح الباري: 275/1) (ب)۔ نہی کا معاملہ زمانہ نزول قرآن کے ساتھ خاص ہے تاکہ قرآن وحدیث کااختلاط نہ ہو۔ (ج)۔ نہی کامطلب یہ تھا کہ ان دونوں چیزوں کو ایک ہی صیغے میں نہ لکھا جائے۔ (د)۔ ابتداء میں کتابت حدیث سے منع کیا گیا، اس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعین کو کتابت کی اجازت دینے سے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔(ھ)۔ نہی اس شخص کے لیے تھی جو صرف کتابت پر اعتماد کرتا ہے، حفظ کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ (فتح الباري: 275/1) (و)۔ ممانعت اس لیے تھی تاکہ کتاب اللہ کے مقابلے میں کوئی دوسری کتاب نہ تیار کر لی جائے۔ (ز)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعین کی اکثریت فن کتابت سے ناآشنا تھی، اس لیے انھیں لکھنے سے منع کردیا اور جو صحیح لکھ سکتے تھے انھیں اجازت دے دی۔ (مشکل الحدیث لإبن قتيبة) منکرین حدیث بھی اس ممانعت کو بڑے شدومد سے پیش کرتے ہیں، حالانکہ ان لوگوں کو احادیث پر اعتماد ہی نہیں۔ یہ عجیب منطق ہے کہ اگرحدیث کتب حدیث میں ہو تو عجمی سازش کا ایک حصہ۔ اگر اسے بطور دلیل پیش کرنا ہو تو قابل حجت۔ اگر احادیث کی عدم کتابت کے لیے بطور ثبوت اسے پیش کیا جا سکتا ہے تو کتابت حدیث کے ثبوت کے لیے ان روایات سے استشہاد کیوں نہیں کیا جاسکتا جو سند کے لحاظ سے کہیں بالاتر ہیں۔ 4۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے ہی سے روافض کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا اور ان کی جانب سے یہ بات عام کی جارہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ خصوصی علوم عطا فرمائے ہیں جن کا دوسرے لوگوں کو علم نہیں ہے۔ اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر حضرت ابوجحیفہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور نوشتہ بھی ہے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میرے پاس کتاب اللہ ہے، فہم ہے اور یہ صحیفہ ہے اور یہ تینوں چیزیں میرے ساتھ خاص نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ’’صحیفہ‘‘ سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کتابت حدیث دور نبوی میں شروع ہو چکی تھی۔ یہ بعد کی پیداوار نہیں۔ 5۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فہم کو الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے ظاہری معانی کے علاوہ کلام کے سیاق وسباق سے جو مسائل واحکام معلوم ہوتے ہیں، ان کا ذکر کرنا چاہتے تھے، یعنی ایک تو وہ مسائل ہیں جو ظاہرالنص سے ہرایک کوسمجھ میں آ جاتے ہیں، دوسرے وہ جو ظاہرالنص سے نہیں بلکہ وہ فحوائے کلام، قیاسات اور طرق استنباط سے معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ ایک دوسرے مقام پر یہ روایت بایں الفاظ موجود ہے ہمارے پاس وہی ہے جو قرآن میں ہے، ہاں فہم بھی ہے جو اس کتاب پر غور وفکر کرنے کے لیے آدمی کو دی جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6903) یعنی اگر اللہ تعالیٰ آدمی کو قرآن مجید میں غور وفکر کرنے کا سلیقہ عطا کردے تو وہ مسائل کے استخراج پر قدرت حاصل کرلیتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ دوسروں سے فوقیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کی تائید درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے۔ طارق بن شہاب کہتے ہیں: میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے دیکھا: واللہ! ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں جسے ہم تمہیں پڑھ کرسنائیں مگر اللہ کی کتاب اور یہ صحیفہ۔ ( مسند احمد: 100/1) اس کا مطلب یہ ہے کہ استخراج کردہ مسائل کا مجموعہ تحریری شکل میں آپ کے پاس موجود تھا جیسا کہ صحیح بخاری کے بعض شراح نے لکھا ہے۔ (فتح الباري: 270/1) 6۔ صحیفے کے مندرجات اور اس کے متعلقہ مسائل واحکام کتاب الدیات میں ذکر کیے جائیں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
113
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
111
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
111
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
111
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
کتابت چونکہ علم کی حفاظت کا سب سے قوی ،تبلیغ کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش اور اشاعت علم کا سب سے آسان طریقہ ہے،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس طریق عمل کو احادیث کی روشنی میں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت علی ؓ سے دریافت کیا: آیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا: ’’نہیں، ہاں ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور وہ فہم ہے جو ایک مسلمان مرد کو دی جاتی ہے یا جو کچھ اس صحیفے میں موجود ہے۔ میں نے پوچھا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: دیت کے احکام، قیدی کو چھڑانے کا بیان اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ کتابت حدیث کے متعلق سلف کی آراء مختلف ہیں۔ اس اختلاف کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اجمال سے کام لیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مختلف فیہ مسائل میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا طریق کار یہ ہے کہ وہ عنوان میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتے۔ البتہ اس کے تحت احادیث وآثار پیش کر کے اپنا رجحان ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس مقام پر بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اگرچہ بعد میں اجماع سے کتابت حدیث کا جواز بلکہ استحباب ثابت ہوچکا ہے بلکہ اندیشہ نسیان کے پیش نظر اس کا وجوب بھی بعید نہیں۔ (فتح الباري: 269/1) 2۔ کتب حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کتابت حدیث کے متعلق ایک حکم امتناعی بایں الفاظ نقل ہوا ہے:’’میری کوئی بات نہ لکھا کرو اور جس نے قرآن کے علاوہ میری باتوں کو لکھا ہے ،اسے چاہیے کہ وہ مٹادے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذھد، حدیث: 7510(3004))اس میں کتابت حدیث سے منع کیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کتابت حدیث کی اجازت تھی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل منقول ہے۔ اس تعارض کو دور کرنے کے لیے مختلف انداز اختیار کیے گئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ (الف)۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ روایت موقوف ہے، اسے موقوف ماننے والوں میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، اس بنا پر تعارض کا قصہ ہی ختم ہے۔ (فتح الباري: 275/1) (ب)۔ نہی کا معاملہ زمانہ نزول قرآن کے ساتھ خاص ہے تاکہ قرآن وحدیث کااختلاط نہ ہو۔ (ج)۔ نہی کامطلب یہ تھا کہ ان دونوں چیزوں کو ایک ہی صیغے میں نہ لکھا جائے۔ (د)۔ ابتداء میں کتابت حدیث سے منع کیا گیا، اس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعین کو کتابت کی اجازت دینے سے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔(ھ)۔ نہی اس شخص کے لیے تھی جو صرف کتابت پر اعتماد کرتا ہے، حفظ کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ (فتح الباري: 275/1) (و)۔ ممانعت اس لیے تھی تاکہ کتاب اللہ کے مقابلے میں کوئی دوسری کتاب نہ تیار کر لی جائے۔ (ز)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعین کی اکثریت فن کتابت سے ناآشنا تھی، اس لیے انھیں لکھنے سے منع کردیا اور جو صحیح لکھ سکتے تھے انھیں اجازت دے دی۔ (مشکل الحدیث لإبن قتيبة) منکرین حدیث بھی اس ممانعت کو بڑے شدومد سے پیش کرتے ہیں، حالانکہ ان لوگوں کو احادیث پر اعتماد ہی نہیں۔ یہ عجیب منطق ہے کہ اگرحدیث کتب حدیث میں ہو تو عجمی سازش کا ایک حصہ۔ اگر اسے بطور دلیل پیش کرنا ہو تو قابل حجت۔ اگر احادیث کی عدم کتابت کے لیے بطور ثبوت اسے پیش کیا جا سکتا ہے تو کتابت حدیث کے ثبوت کے لیے ان روایات سے استشہاد کیوں نہیں کیا جاسکتا جو سند کے لحاظ سے کہیں بالاتر ہیں۔ 4۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے ہی سے روافض کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا اور ان کی جانب سے یہ بات عام کی جارہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ خصوصی علوم عطا فرمائے ہیں جن کا دوسرے لوگوں کو علم نہیں ہے۔ اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر حضرت ابوجحیفہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور نوشتہ بھی ہے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میرے پاس کتاب اللہ ہے، فہم ہے اور یہ صحیفہ ہے اور یہ تینوں چیزیں میرے ساتھ خاص نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ’’صحیفہ‘‘ سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کتابت حدیث دور نبوی میں شروع ہو چکی تھی۔ یہ بعد کی پیداوار نہیں۔ 5۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فہم کو الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے ظاہری معانی کے علاوہ کلام کے سیاق وسباق سے جو مسائل واحکام معلوم ہوتے ہیں، ان کا ذکر کرنا چاہتے تھے، یعنی ایک تو وہ مسائل ہیں جو ظاہرالنص سے ہرایک کوسمجھ میں آ جاتے ہیں، دوسرے وہ جو ظاہرالنص سے نہیں بلکہ وہ فحوائے کلام، قیاسات اور طرق استنباط سے معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ ایک دوسرے مقام پر یہ روایت بایں الفاظ موجود ہے ہمارے پاس وہی ہے جو قرآن میں ہے، ہاں فہم بھی ہے جو اس کتاب پر غور وفکر کرنے کے لیے آدمی کو دی جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6903) یعنی اگر اللہ تعالیٰ آدمی کو قرآن مجید میں غور وفکر کرنے کا سلیقہ عطا کردے تو وہ مسائل کے استخراج پر قدرت حاصل کرلیتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ دوسروں سے فوقیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کی تائید درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے۔ طارق بن شہاب کہتے ہیں: میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے دیکھا: واللہ! ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں جسے ہم تمہیں پڑھ کرسنائیں مگر اللہ کی کتاب اور یہ صحیفہ۔ ( مسند احمد: 100/1) اس کا مطلب یہ ہے کہ استخراج کردہ مسائل کا مجموعہ تحریری شکل میں آپ کے پاس موجود تھا جیسا کہ صحیح بخاری کے بعض شراح نے لکھا ہے۔ (فتح الباري: 270/1) 6۔ صحیفے کے مندرجات اور اس کے متعلقہ مسائل واحکام کتاب الدیات میں ذکر کیے جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انھیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انھوں نے مطرف سے سنا، انھوں نے شعبی ؓ سے، انھوں نے ابوجحیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
بہت سے شیعہ یہ گمان کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ ایسے خاص احکام اور پوشیدہ باتیں کسی صحیفے میں درج ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں بتائیں، اس لیے ابوجحیفہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا اور آپ نے صاف لفظوں میں اس خیال باطل کی تردید فرمادی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ash-Sha'bi: Abu Juhaifa said, "I asked Ali, 'Have you got any book (which has been revealed to the Prophet (ﷺ) apart from the Qur'an)?' 'Ali replied, 'No, except Allah's Book or the power of understanding which has been bestowed (by Allah) upon a Muslim or what is (written) in this sheet of paper (with me).' Abu Juhaifa said, "I asked, 'What is (written) in this sheet of paper?' Ali replied, it deals with The Diyya (compensation (blood money) paid by the killer to the relatives of the victim), the ransom for the releasing of the captives from the hands of the enemies, and the law that no Muslim should be killed in Qisas (equality in punishment) for the killing of (a disbeliever).