تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتابت حدیث دردور نبوی ثابت کرناچاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرکے بالکل آخری حصے میں کچھ تحریر فرمانے کا ارادہ فرمایا لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اختلاف کی وجہ سے اسے عملی شکل دینے کی نوبت نہ آئی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقصد کے اثبات کے لیے چار حدیثیں پیش کی ہیں: پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے کہ ان کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں کچھ احکام لکھے ہوئے تھے لیکن اس میں بدرجہ امکان یہ احتمال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نوشتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تحریر فرمایا ہو یا انھیں نہی کی حدیث نہ پہنچی ہو، اس لیے دوسری حدیث پیش کی جس میں ابوشاہ یمنی کی درخواست پر آپ نے خطبہ لکھنے کی اجازت دی، مگر اس میں بھی خصوصیت کا یہ احتمال موجود ہے کہ شاید نابینا اور امی حضرات کے لیے یہ حکم ہو، اس لیے تیسری حدیث لائے جس میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا عمل کتابت منقول ہے جو آپ کی اجازت سے ہوا۔ اس میں خصوصیت نہیں بلکہ عموم ہے۔ لیکن ان تینوں احادیث میں کہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قصد کتابت کا ذکر نہیں، اس لیے یہ آخری روایت پیش کرکے آپ کے ارادہ کتابت کا بھی ثبوت فراہم کردیا۔ اورظاہر ہے کہ آپ کا ارادہ حق اور درست ہی ہوسکتا ہے اس لیے بہترین دلائل کے ساتھ کتابت حدیث کا عمل ثابت ہو گیا۔ (فتح الباري: 277/1)
2۔ یہ حدیث، حدیث قرطاس کے نام سے مشہور ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چار دن قبل جمعرات کے دن یہ واقعہ ہوا۔ مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ شانے کی ہڈی لائیں تاکہ میں اس پر امت کو گمراہی کے تدارک کے لیے کچھ لکھوا دوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد آپ کے حکم سے گریز نہ تھا بلکہ آپ نے ایسا ازراہ محبت فرمایا، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد چار روز تک زندہ رہے اور دوسرے احکام نافذ فرماتے رہے جبکہ تحریر کے متعلق آپ نے سکوت اختیار فرمایا۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے آپ کو اتفاق تھا۔ بنیادی طور پر یہ حکم تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا تھا، کم از کم ان سے اس کوتاہی کی توقع نہ تھی۔ اگر یہ حکم ضروری ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے۔3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ تحریر کی نوبت ہی نہ آئی اور باہمی اختلاف اس سے محرومی کا باعث ہوا۔ اس گفتگو سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس واقعہ کے وقت وہاں شریک مجلس تھے اور وہاں سے نکلتے ہوئے ان کلمات افسوس کا اظہار فرمایا، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مختلف شواہد کی بنا پر اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اپنے تلامذہ کے سامنے حدیث بیان فرماتے تو آخر میں یہ کلمات کہتے تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري: 277/1)
4۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تحریر کو مؤخر کرانے میں اکیلے نہ تھے بلکہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے ساتھ تھے۔ ان حضرات کو اس بات کا یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات واجب التعمیل ہیں لیکن یہ حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ منافقین کو باتیں بنانے کے لیے ایک ثبوت مل جائے گا کہ خاکم بدہن، لیجئے شدت مرض کے ایام میں جبکہ ہوش وحواس میں اختلال کا امکان تھا، ایک تحریر لکھوالی۔ منافقین کی اس زبان بندی اور یاوہ گوئی کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوردیگرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا۔ (فتح الباري: 276/1)
5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے ہاں لڑائی جھگڑے کا کیا کام ہے؟ آپ کا یہ خطاب تمام شرکائے مجلس کو تھا جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ اس حکم کی تعمیل میں سب لوگ گھروں کو چلے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق تھی، بصورت دیگر وہی کاغذ وغیرہ لے آتے، پھر آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد بھی تھے، گھر آنا جانا رہتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر چلے جانے کے بعد یہ کام بخوبی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ان کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھی۔ واللہ أعلم۔