تشریح:
معلوم ہوا کہ عبادت کرتے وقت میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ اس کے متعلق بے جا سختی اور تشدد معیوب ہے کیونکہ ایسا کرنے سے طبیعت میں نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں جو قابل مذمت ہیں، نیز ایسا کرنا روح عبادت کے بھی خلاف ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی مختلف طبائع بنائی ہیں: کچھ لوگ بڑے عزم اور حوصلے والے ہوتے ہیں۔ وہ عزائم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور رخصتوں کو اختیار نہیں کرتے۔ وہ تمام اوقات اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں، نیز جہاد کرتے وقت اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، لیکن ایسے باہمت لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو دین کی رخصتوں اور آسانیوں پر عمل کرتے ہیں۔ شریعت کے اکثر احکام ایسے ہی لوگوں سے متعلق ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ ضابطہ مقرر ہوا ہے کہ خواہ تھوڑا عمل ہو مگر ہمیشگی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو عبادات میں تشدد سے منع کیا گیا ہے تاکہ زیادہ عمل سے اُکتا نہ جائیں، لیکن رسول اللہ ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کے قدموں پر ورم آ جاتا تھا۔