تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں: میں نے اللہ کی قسم کھا کر یہ وعدہ کیا تھا کہ زندگی بھر دن کا روزہ رکھوں گا اور رات کا قیام کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ’’یہ تیرے بس کا کام نہیں۔‘‘ اور مذکورہ ارشادات فرمائے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3418) ایک روایت میں ہے کہ میرے والد عمرو بن عاص ؓ نے میرا نکاح ایک اعلیٰ نسب والی عورت سے کر دیا۔ وہ ایک دن اپنی بہو سے ملنے آئے اور میرے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ اچھے آدمی ہیں، لیکن ہمارے حقوق کی خبر گیری نہیں کرتے۔ انہوں نے رسول الله ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ مجھ سے ملاقات کرے۔‘‘ ملاقات کے وقت آپ نے مجھے مذکورہ ہدایات دیں۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث:5052) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’تیری آنکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمانوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ ہر ماہ کے تین روزے کافی ہیں۔ اللہ کے ہاں ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہو گا، اس طرح تجھے زندگی بھر کے روزوں کا ثواب ملے گا۔‘‘ لیکن میں نے خود پر تشدد کیا، کاش کہ میں اس رخصت کو قبول کر لیتا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1975)
(2) اس سے معلوم ہوا کہ مستحبات پر واجبات کی ادائیگی کو مقدم کرنا چاہیے اور دیگر حقوق کی ادائیگی اس قدر نہ کی جائے کہ عبادت کا حق پامال ہونے لگے، اس لیے مذکورہ حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے عبادت میں مصروف ہونا ایک مسلمان کی شان ہے۔ (فتح الباري:61/3)