باب: نبی کریمﷺ کی رات کی نماز کی کیا کیفیت تھی؟ اور رات کی نماز کیوں کر پڑھنی چاہیے؟
)
Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: How was the Salat of the Prophet (pbuh) and how many Rak'a he used to offer at night?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1153.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں وتر اور فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔
تشریح:
(1) مختلف حالات و ظروف کے پیش نظر حضرت عائشہ ؓ سے نماز تہجد میں رکعات کی تعداد کو مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت مسروق نے سات، نو اور گیارہ رکعت بیان کی ہیں۔ مختلف اوقات یا دیگر اعذار کی وجہ سے نماز تہجد میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ حضرت قاسم کی روایت اکثر اوقات پر محمول ہے، یعنی نماز تہجد کی گیارہ رکعت ہوتیں اور نماز فجر کی دو سنت شامل کر کے اسے تیرہ بیان کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو سلمہ کی روایت میں وضاحت ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں آپ کی نماز تہجد گیارہ رکعت پر مشتمل ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1147) (2) زہری کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نماز تہجد تیرہ رکعت پڑھتے، پھر صبح کی اذان سنتے تو ہلکی پھلکی فجر کی دو سنت ادا کرتے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1170) یہ حدیث دیگر احادیث کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ ان کی تطبیق بایں طور ہے کہ ان میں نماز عشاء کے بعد والی دو سنت شامل کی گئی ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ انہیں گھر میں ادا کرتے تھے یا ان میں نماز تہجد کی افتتاحی دو رکعت شمار کی گئی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ دراصل مختلف اوقات اور حالات کے پیش نظر ان کی تعداد مختلف بیان کی گئی ہے، البتہ نماز تہجد گیارہ رکعت سے زائد نہیں ہوتی تھی۔ (3) اس میں حکمت یہ ہے کہ دن کے فرائض بھی گیارہ ہیں، چار رکعت نماز ظہر، چار رکعت نماز عصر اور تین رکعت نماز مغرب جو دن کے وتر ہیں، اس لیے رات کی نماز بھی اس کے مطابق گیارہ رکعت ہے اور اس میں تین وتر شامل ہیں۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:28/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1116
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1140
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1140
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1140
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں وتر اور فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) مختلف حالات و ظروف کے پیش نظر حضرت عائشہ ؓ سے نماز تہجد میں رکعات کی تعداد کو مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت مسروق نے سات، نو اور گیارہ رکعت بیان کی ہیں۔ مختلف اوقات یا دیگر اعذار کی وجہ سے نماز تہجد میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ حضرت قاسم کی روایت اکثر اوقات پر محمول ہے، یعنی نماز تہجد کی گیارہ رکعت ہوتیں اور نماز فجر کی دو سنت شامل کر کے اسے تیرہ بیان کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو سلمہ کی روایت میں وضاحت ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں آپ کی نماز تہجد گیارہ رکعت پر مشتمل ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1147) (2) زہری کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نماز تہجد تیرہ رکعت پڑھتے، پھر صبح کی اذان سنتے تو ہلکی پھلکی فجر کی دو سنت ادا کرتے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1170) یہ حدیث دیگر احادیث کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ ان کی تطبیق بایں طور ہے کہ ان میں نماز عشاء کے بعد والی دو سنت شامل کی گئی ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ انہیں گھر میں ادا کرتے تھے یا ان میں نماز تہجد کی افتتاحی دو رکعت شمار کی گئی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ دراصل مختلف اوقات اور حالات کے پیش نظر ان کی تعداد مختلف بیان کی گئی ہے، البتہ نماز تہجد گیارہ رکعت سے زائد نہیں ہوتی تھی۔ (3) اس میں حکمت یہ ہے کہ دن کے فرائض بھی گیارہ ہیں، چار رکعت نماز ظہر، چار رکعت نماز عصر اور تین رکعت نماز مغرب جو دن کے وتر ہیں، اس لیے رات کی نماز بھی اس کے مطابق گیارہ رکعت ہے اور اس میں تین وتر شامل ہیں۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:28/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ وتر اور فجر کی دو سنت رکعتیں اسی میں ہوتیں۔
حدیث حاشیہ:
وتر سمیت یعنی دس رکعتیں تہجد کی دو دو کر کے پڑھتے۔ پھر ایک رکعت پڑھ کر سب کو طاق کر لیتے۔ یہ گیارہ تہجد اور وتر کی تھیں اور دو فجر کی سنتیں ملا کر تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ جن روایات میں آپ کا بیس رکعات تراویح پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA), The Prophet (ﷺ) used to offer thirteen Rakat of the night prayer and that included the Witr and two Rakat (Sunna) of the Fajr prayer.