تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مذکورہ سنتیں تنہا پڑھی تھیں۔ معیت سے مراد صرف مقدار میں متابعت ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ نے انہیں رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں ادا کیا تھا، پھر رسول اللہ ﷺ چونکہ دن کے اوقات میں لوگوں کے ساتھ مصروف گفتگو ہوتے، اس لیے دن کے وقت فرض نماز کے بعد سنتیں مسجد میں ادا کرتے تھے جبکہ رات کے اوقات میں اپنے گھر میں ہوتے اور گھر ہی میں سنتیں ادا کرتے۔ جمعہ پڑھانے کے بعد جلدی گھر واپس آ جاتے اور قیلولہ فرماتے، اس لیے جمعہ کے بعد کی سنتیں بھی گھر میں ادا کرتے جبکہ ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے اور اس کے بعد سنتوں کو مسجد میں ادا کرتے تھے۔ (فتح الباري:66/3) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ظہر سے پہلے چار سنت پڑھنے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1888(730)) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو سنت فجر پڑھتے نہیں دیکھا، انہیں اپنی بہن حضرت حفصہ ؓ کے حوالے سے بیان کیا اور معذرت کی کہ اس وقت میں خود رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ آپ اس وقت مخلوق سے قطع تعلق ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ واللہ أعلم۔
(2) آخر میں امام بخاری ؒ نے کثیر بن فرقد کی متابعت بیان کی ہے جو ہمیں متصل سند سے دستیاب نہیں ہو سکی، البتہ ایوب کی متابعت کو خود امام بخاری ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1180)