Sahi-Bukhari:
Prayer at Night (Tahajjud)
(Chapter: To lie down on the right side after offering two Rak'a (Sunna) of the Fajr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1173.
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب صبح کی دو سنتیں پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔
تشریح:
(1) صبح کی دو سنت کے بعد لیٹنے کے متعلق افراط و تفریط پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دائیں کروٹ پر لیٹنا ضروری ہے اور صحت نماز کی شرط ہے۔ جیسا کہ امام ابن حزم ؒ نے محلیٰ میں لکھا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں امر نبوی وارد ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی صبح کی دو سنت پڑھے تو اسے چاہیے کہ دائیں کروٹ لیٹے۔‘‘(سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1281) ابراہیم نخعی ؒ نے اسے شیطان کا لیٹنا قرار دیا ہے۔ جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔ (فتح الباري:57/3) امام بخاری ؒ نے اس کی مشروعیت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل مبارک ہے اور اس سلسلے میں جو امر وارد ہے وہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے کیونکہ بعض اوقات آپ نے اس پر عمل نہیں بھی کیا۔ جیسا کہ آئندہ حدیث سے واضح ہو گا۔ (2) لیٹنے کے دوران میں جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1134
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1160
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1160
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1160
تمہید کتاب
تہجد، ہجود سے ہے جس کے لغوی معنی سونا اور سو کر بیدار ہونا دونوں ہیں۔ چونکہ نماز تہجد سو کر اٹھنے کے بعد رات کے آخری حصے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے اسے تہجد کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض لوگ قبل از نیند رات کے نوافل کو تہجد قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تہجد وہی ہے جو سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے۔ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔ تاہم عام لوگوں کے لیے بھی، جن کے لیے رات کو بیدار ہونا باعث مشقت اور طبیعت پر گراں ہوتا ہے، یہ خوش خبری ہے کہ اگر کوئی شخص نماز عشاء کے متصل وتر کے بعد دو رکعت پڑھ کر سو جائے اور رات کو وہ بیدار نہ بھی ہو سکے تو وہی دو رکعت اس کے لیے قیام اللیل اور تہجد کی جگہ کافی ہوں گی۔(سنن الدارمی،الصلاۃ،حدیث:1801)فرائض پنجگانہ کے بعد اس نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ دراصل نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان کے طویل وقفے میں کوئی نماز فرض نہیں کی گئی، حالانکہ یہ وقت اس اعتبار سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ اس میں پرسکون لمحات میسر آتے ہیں۔ اگر آدمی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے سو جائے، پھر نصف شب گزر جانے کے بعد کسی وقت بیدار ہو جائے تو ان لمحات میں بڑی یکسوئی اور دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔ اس دوران میں نماز پڑھتے وقت دل کی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو دوسرے کسی وقت میں میسر نہیں آتا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے وقت میں بستر چھوڑ کر نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور اس کی تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿٦﴾) "رات کا اٹھنا یقینا نفس کو زیر کرنے (کچلنے) کا ذریعہ ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے یہی زیادہ موزوں وقت ہے۔" (المزمل6:73)ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے تہجد گزار بندوں کی بایں الفاظ تعریف فرمائی ہے: (تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾) "ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید سے پکارتے ہیں۔ اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔" (السجدۃ18:32۔17)قرآن کریم میں ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو مقام محمود کی امید دلائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾) (بنی اسرائیل79:17) "آپ رات کے کچھ حصے میں تہجد ادا کیجیے۔ یہ آپ کے لیے زائد (اور مخصوص) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔"واضح رہے کہ مقام محمود جنت میں ایک بلند ترین مقام ہے جو قیامت کے دن صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں کوئی خاص مناسبت ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے انہیں مقام محمود کے کسی درجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ضرور نصیب ہو گی۔احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ آسمان اول پر نزول فرماتا اور اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مبارک ساعات اور پرکیف لمحات کا احساس دلانے کے لیے تہجد کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں تقریبا اڑسٹھ (68) احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر موقع و محل کی مناسبت سے سینتیس (37) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تہجد رات کی نفل نماز ہے، اس مناسبت سے دن میں جو نفل نمازیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، ان کے متعلق بھی احادیث پیش کی ہیں، مثلاً: نماز فجر سے پہلے دو سنتوں کی اہمیت و فضیلت، ان میں قراءت اور سلام پھیرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کی حیثیت، پھر نماز چاشت کا بیان، اسی طرح گھروں میں نوافل ادا کرنے کا اہتمام اور ان کی جماعت کو بطور خاص بیان کیا ہے۔ نماز تہجد کے متعلق اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک میں اس کا خصوصی اہتمام اس کی رکعات کی تعداد، نیز اس کے متعلق عدم تشدد اور اس کے کلیتاً ترک کرنے کی نحوست، بیماری یا کسی اور وجہ سے اس کا ترک کرنا، نیز اس میں قیام اور سجود کا لمبا کرنا، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا نمونہ اور امت کو اس کے متعلق شوق دلانا، علاوہ ازیں وقت سحر اور اس کی فضیلت وغیرہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی بیان فرمائے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قلوب و اذہان کو جلا بخشنے کے لیے اس کا مطالعہ کریں اور شب بیداری کے جذبے سے ان احادیث کو پڑھیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات میں نیاز و مناجات کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب صبح کی دو سنتیں پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صبح کی دو سنت کے بعد لیٹنے کے متعلق افراط و تفریط پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دائیں کروٹ پر لیٹنا ضروری ہے اور صحت نماز کی شرط ہے۔ جیسا کہ امام ابن حزم ؒ نے محلیٰ میں لکھا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں امر نبوی وارد ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی صبح کی دو سنت پڑھے تو اسے چاہیے کہ دائیں کروٹ لیٹے۔‘‘(سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1281) ابراہیم نخعی ؒ نے اسے شیطان کا لیٹنا قرار دیا ہے۔ جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔ (فتح الباري:57/3) امام بخاری ؒ نے اس کی مشروعیت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل مبارک ہے اور اس سلسلے میں جو امر وارد ہے وہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے کیونکہ بعض اوقات آپ نے اس پر عمل نہیں بھی کیا۔ جیسا کہ آئندہ حدیث سے واضح ہو گا۔ (2) لیٹنے کے دوران میں جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ فجر کی دو سنت رکعتیں پڑھنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے۔
حدیث حاشیہ:
فجر کی سنت پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹنا مسنون ہے، اس بارے میں کئی جگہ لکھا جا چکا ہے۔ یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق یہ باب منعقد فرمایا ہے اور حدیث عائشہ ؓ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔ علامہ شوکانی نے اس بارے میں علماءکے چھ قول نقل کئے ہیں۔ المحدث الکبیر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں: الْأَوَّلُ أَنَّهُ مَشْرُوعٌ عَلَى سَبِيلِ الِاسْتِحْبَابِ كَمَا حَكَاهُ التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ الْحَافِظُ بن الْقَيِّمِ فِي زَادِ الْمَعَادِ قَدْ ذَكَرَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِي الْمُصَنَّفِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَيُّوبَ عن بن سِيرِينَ أَنَّ أَبَا مُوسَى وَرَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ وَأَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ كَانُوا يَضْطَجِعُونَ بَعْدَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ وَيَأْمُرُونَ بِذَلِكَ وَقَالَ الْعِرَاقِيُّ مِمَّنْ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ أَوْ يُفْتِي بِهِ عَنِ الصَّحَابَةِ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ وَرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَأَبُو هُرَيْرَةَ انْتَهَى وَمَنْ قَالَ بِهِ مِنَ التَّابِعِينَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ كَمَا فِي شَرْحِ الْمُنْتَقَى وَقَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ عَلِيُّ بْنُ حَزْمٍ فِي الْمُحَلَّى وَذَكَرَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدٍ فِي كِتَابِ السَّبْعَةِ أَنَّهُمْ يَعْنِي سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ وَالْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَعُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ وَأَبَا بَكْرٍ هُوَ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَخَارِجَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَعُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ كَانُوا يَضْطَجِعُونَ عَلَى أَيْمَانِهِمْ بَيْنَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ انْتَهَى وَمِمَّنْ قَالَ بِهِ مِنَ الْأَئِمَّةِ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُقَالَ الْعَيْنِيُّ فِي عمدة القارىء ذَهَبَ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ إِلَى أَنَّهُ سُنَّةٌ انْتَهَى۔(تحفة الأحوذي)یعنی اس لیٹنے کے بارے میں پہلا قول یہ ہے کہ یہ مستحب ہے جیسا کہ امام ترمذی نے بعض اہل علم کا مسلک یہی نقل فرمایا ہے اور ابوموسی اشعری اور رافع بن خدیج اور انس بن مالک اور ابوہریرہ ؓ کا یہی عمل تھا، یہ سب سنت فجر کے بعد لیٹا کرتے اورلوگوں کو بھی اس کاحکم فرمایاکرتے تھے جیسا کہ علامہ ابن قیم ؒ نے زاد المعاد میں نقل فرمایا ہے اور علامہ عراقی نے ان جملہ مذکورہ صحابہ کے نام لکھے ہیں کہ یہ اس کے لیے فتوی دیاکرتے تھے، تابعین میں سے محمد بن سیرین اور عروہ بن زبیر کا بھی یہی عمل تھا۔ جیسا کہ شرح منتقیٰ میں ہے اور علامہ ابن حزم نے محلّی میں نقل فرمایا ہے کہ سعید بن مسیب، قاسم بن محمد بن ابی بکر، عروہ بن زبیر، ابو بکر بن عبدالرحمن، خارجہ بن زید بن ثابت اور عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن سلیمان بن یسار، ان جملہ اجلہ تابعین کا یہی مسلک تھا کہ یہ فجر کی سنتیں پڑھ کر دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔ امام شافعی اوران کے شاگردوں کا بھی یہی مسلک ہے کہ یہ لیٹنا سنت ہے۔ اس بارے میں دوسرا قول علامہ ابن حزم کا ہے جو اس لیٹنے کو واجب کہتے ہیں۔ اس بارے میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں: قُلْتُ قَدْ عَرَفْتَ أَنَّ الْأَمْرَ الْوَارِدَ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَحْمُولٌ عَلَى الِاسْتِحْبَابِ لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يُدَاوِمُ عَلَى الِاضْطِجَاعِ فَلَا يَكُونُ وَاجِبًا فَضْلًا عَنْ أَنْ يَكُونَ شَرْطًا لِصِحَّةِ صَلَاةِ الصُّبْحِ۔یعنی حدیث ابوہریرہ ؓ میں اس بارے میں جو بصیغہ امر وارد ہوا ہے کہ جوشخص فجر کی سنتوں کو پڑھے اس کو چاہیے کہ اپنی دائیں کروٹ پر لیٹے۔ (رواہ الترمذي) یہ امر استحباب کے لیے ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت ﷺ سے اس پر مداومت منقول نہیں ہے بلکہ ترک بھی منقول ہے۔ پس یہ بایں طور واجب نہ ہوگا کہ نماز صبح کی صحت کے لیے یہ شرط ہو۔ بعض بزرگوں سے اس کا انکار بھی ثابت ہے مگر صحیح حدیثوں کے مقابلے پر ایسے بزرگوں کا قول قابل حجت نہیں ہے۔ اتباع رسول کریم ﷺ بہر حال مقدم اور موجب اجر وثواب ہے۔ پچھلے صفحات میں علامہ انورشاہ دیوبندی مرحوم کا قول بھی اس بارے میں نقل کیا جا چکاہے۔ بحث کے خاتمہ پر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں۔ والقول الراجح المعمول علیه ھو أن الاضطجاع بعد سنة الفجر مشروع علی طریق الاستحباب واللہ تعالی أعلم۔یعنی قول راجح یہی ہے کہ یہ لیٹنا بطور استحباب مشروع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) used to lie down on his right side, after offering two Rakat (Sunna) of the Fajr prayer.