تشریح:
(1) عبداللہ بن حارث سے بھی اس قسم کی روایت مروی ہے کہ میں متعدد صحابۂ کرام ؓ سے ملا اور رسول اللہ ﷺ کی نماز چاشت کے متعلق دریافت کرتا رہا۔ مجھے ام ہانی ؓ کے علاوہ کسی نے بھی اس کے متعلق اطلاع نہیں دی۔ انہوں نے بتایا کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ خوب دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے، غسل فرمایا، پھر آپ نے آٹھ رکعات ادا فرمائیں۔ میں نے آپ کو اس سے پہلے اور اس کے بعد یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1668(338)) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے نماز چاشت کی آٹھ رکعات ادا فرمائیں اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة:234/2)
(2) اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و عمل سے نماز اشراق کی اہمیت و فضیلت ثابت ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’ہر انسان کو اپنے جسم کے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔ سبحان الله کہنا،الحمدلله کہنا، لا إله إلا الله کہنا اور الله أكبر کہنا بھی صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔ اگر اشراق کی دو رکعت پڑھ لی جائیں تو ان سب کاموں سے کفایت کر جاتی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1871(720)) حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ اس نماز کا اہتمام نہیں کرتے تھے، ہاں! اگر دوران سفر میں گھر جیسی سہولت میسر ہو تو نماز اشراق کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ حضرت ام ہانی ؓ کے گھر میں سہولیات میسر تھیں تو آپ نے نماز اشراق ادا کی جبکہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ (فتح الباري:68/3)